عصمت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بسم الله الرحمن الرحیم

مضامین بسلسلہ اسلام:
اہل تشیع
کوئی جوان نہیں سوائے علی کے اور کوئی تلوار نہیں سوائے ذو الفقار کے

عصمت کے معانی بچا ہونا یا محفوظ و مصئون ہونے کے ہیں۔

عصمت کے حقیقت[ترمیم]

عصمت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کی قدرت اور اختیار کے باقی رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کا اس بندہ میں گناہ پیدا نہ کرنا انبیاء علیھم السلام وحی سے پہلے اور بعد کفر سے معصوم ہیں کوئی بھی گناہ ان سے سرزد نہیں ہوتا [1] اہل تشیع عصمت کی صفت کو فرشتوں انبیاء و رُسُل اور اماموں میں بھی مانتے ہے۔ اس عقیدے کے مطابق یہ ہستیاں گناہوں اور غلطیوں سے پاک ہیں۔[حوالہ درکار]

عصمت اہلسنت کے نزدیک[ترمیم]

عصمت نبی اور مَلک(فرشتوں)کا خاصہ ہے کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے۔ عصمت انبیا کے یہ معانی ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہو لیا، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے۔ بخلاف ائمہ و اکابر اولیا کہ اﷲ عزوجل انھیں محفوظ رکھتا ہے، اُن سے گناہ ہوتا نہیں، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں۔[2] انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور صحابہٴ کرام کا معیارِ حق ہونا اہل سنت والجماعت کے اجماعی مسائل میں سے ہے، ان میں سے کسی ایک چیز کا منکر اہل سنت والجماعت سے خارج ہے۔[3]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شرح عقائد نسفی ص 449، محمد یوسف القادری،شبیر براسدرز اردو بازار لاہور 
  2. بہار شریعت ،جلد اول صفحہ 38،39مفتی محمد امجد علی اعظمی ناشر مکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  3. https://darulifta-deoband.com/home/ur/islamic-beliefs/249۔ "دارالافتاء دیوبند"