بھورا بونا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

بھورے بونے (brown dwarf) سے مراد ایسے اجسام فلکی ہیں جو سورج سے چھوٹے اور ہلکے ہونے کی وجہ سے اپنی ہائیڈروجن کے فیوژن (fusion) کے قابل نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے ان میں سے اتنی توانائی خارج نہیں ہوتی کہ یہ اجسام فلکی کسی ستارے کی طرح روشن ہو سکیں۔

اس تصویر میں دو بھورے بونوں Gliese 229B اور Teide 1 کا موازنہ مشتری اور سورج سے کیا گیا ہے۔

سورج کے گرد گردش کرنے والا سب سے بڑا سیارہ مشتری ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر مشتری کی کمیت سو گنا زیادہ ہوتی تو مشتری خود بھی ایک ستارہ بن جاتا کیونکہ اتنی کمیت پر ہائیڈروجن میں فیوژن کا عمل شروع ہو جاتا ہے جس سے ہیلیئم بنتی ہے اور بے پناہ توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو ستارے کو گرم کر کے روشن کر دیتی ہے۔ مشتری کا وزن ہماری دنیا کے مقابلے میں 317.8 گنا زیادہ ہے جبکہ مشتری کے مقابلے میں سورج 1047 گنا زیادہ کمیت رکھتا ہے۔
بھورے بونے سیاروں کی سطح کا درجہ حرارت لگ بھگ 2500 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی کے سورج کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

بھورے بونوں کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ان کی کمیت مشتری کے مقابلے میں 75 سے 80 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اگر ایسے کسی جسم کی کمیت مشتری سے صرف 13 گنا زیادہ ہو تو ہائیڈروجن میں تو فیوژن ممکن نہیں ہو گا لیکن ڈیوٹیریئم میں گاہے بگاہے فیوژن ہوتا رہے گا جس سے تھوڑی بہت توانائی نکلتی رہے گی۔ اگر کمیت مشتری سے 65 گنا زیادہ ہو تو لیتھیئم میں بھی فیوژن ممکن ہو جاتا ہے لیکن لیتھیئم اتنی فراوانی نہیں رکھتا۔

نظام شمسی کے بڑے سیاروں میں مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون شامل ہیں۔ ان چاروں میں یورینس سب سے چھوٹا ہے۔ یورینس کے علاوہ باقی تینوں سیارے سورج سے جتنی توانائی حاصل کرتے ہیں اس سے زیادہ خارج کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں کبھی کبھار فیوژن ہوتا رہتا ہے مگر چین ری ایکشن ممکن نہیں۔ زحل اور مشتری کی جسامت میں تھوڑا سا فرق ہے حالانکہ زحل کی کمیت مشتری کی ایک تہائی ہے۔ اسی طرح بھورے بونے چاہے زیادہ کمیت کے ہوں یا کم کمیت کے، ان کی جسامت مشتری کی جسامت سے بہت زیادہ بڑی نہیں ہوتی یعنی مشتری کے نصف قطر سے صرف 10–15% تک زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے بھورے بونوں کی جسامت سفید بونے ستاروں کی طرح electron-degeneracy پریشر سے کنٹرول ہوتی ہے۔

بھورے سیاروں میں عام طور پر لیتھیئم پایا جاتا ہے جو روشنی کے طیف میں 670.8 نینو میٹر پر لیتھیئم لائن بناتا ہے۔ اس کے برعکس ستارے اپنا لیتھیئم بڑی تیزی سے استعمال کرتے ہیں اس لیے یہ صرف نئے ستاروں میں ہی پایا جاتا ہے اور جوان اور بڈھے ستاروں میں یہ نہیں پایا جاتا۔ ہمارے نظام شمسی کے سورج میں بھی لیتھیئم نہ ہونے کے برابر ہے۔ چونکہ لیتھیئم صرف ستارے کے مرکز میں ہی فیوژن میں استعمال ہو سکتا ہے اس لیے ستارے کی سطح کا لیتھیئم خرچ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ستارے کے پلازما میں مرکز کی جانب بہاو موجود ہو تو سطح کا لیتھیئم بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ جن ستاروں کے گرد سیارے ہوتے ہیں ان ستاروں میں لیتھیئم کی شدید کمی ہو جاتی ہے کیونکہ سیاروں کی کشش کی وجہ سے ستاروں کے اندر پلازمہ کا بہاو بڑھ جاتا ہے۔[1]


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]