بلویندر سنگھ کا قتل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حیدرآباد سے کریم نگر تک کا نقشہ

بلویندر سنگھ بھارتی ریاست تلنگانہ کے شہر کریم نگر سے تعلق رکھنے والا 24 سالہ ذہین کمپیوٹر انجنیئر تھا۔ اسے ریاست کی پولیس نے 22 دسمبر، 2015ء کو اس وقت گولی مارکر ہلاک کر دیا جب بلویندر سنگھ نے کسی گھریلو معاملے پر خفا ہو کر تلوار نکال لی اور اپنے ماں باپ، دو پولیس اہلکار اور سڑک کے لوگوں کو زخمی کر چکا تھا اور آپے سے باہر تھا۔

بلویندر سنگھ کا پس منظر[ترمیم]

بلویندر سنگھ بچپن سے تعلیم کے میدان میں سرفہرست تھا۔ اس نے میٹرک میں 98 فیصد، بارہویں (جسے مقامی طور پر انٹرمیڈیٹ کہا جاتا ہے) میں اس نے 95 فیصد اور ڈگری کی سطح پر اس نے 90 فیصد نمبرات حاصل کیے۔ اس نے ایم سی اے کا ارادہ کیا تھا اور اس کے داخلہ امتحان میں اس نے ریاستی سطح پر چھٹا مقام حاصل کیا۔ ایم سی اے کی تکمیل کے بعد اسے بنگلور کی ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔[1] بلویندر بھارتی سیول سروسیس امتحانات کے ابتدائی مرحلے میں صرف ایک نشان سے ناکام ہوا تھا، اس وجہ سے شدید ذہنی الجھن کا شکار تھا۔[2]

قتل سے جڑے سلسلہ وار واقعات[ترمیم]

  • صبح ساڑھے 6 بجے ایک گھریلو معاملے پر اختلاف رائے کے بعد بلویندر سنگھ نے اپنی ماں ستونت کور اور باپ اوتار سنگھ پر تلوار سے حملہ کر دیا۔
  • وہ چیختے ہوئے باہر آیا اور سڑک سے گزرتی ایک کار پر حملہ کر کے اس کے آئینوں کو پھوڑ ڈالا۔
  • وہ سڑک پر بے قابو گھومنے لگا اور رہ گیروں کو خوفزدہ کرنے لگا۔
  • سوا 7 بجے وہ ایک آٹو ڈرائیور پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا جو اسکول کے بچوں کو لے جا رہا تھا۔
  • ساڑھے 7 بجے کانسٹیبل ایم ایم علی مقام پر پہنچ کر بلویندر کو دبوچنے کی کوشش میں خود زخمی ہو گئے۔
  • 7 بج کر 40 منٹ پر ہیڈ کانسٹیبل مالتیا بھی بلویندر کو پکڑنے کی کوشش میں خود زخمی ہو گئے۔
  • 7 بج کر 45 منٹ پر سرکل انسپکٹر وجے ساردھی مقام پر پہنچ کر بلویندر پر چلایا تاکہ ہیڈ کانسٹیبل مالتیا کو بچایا جاسکے۔
  • 8 بجے بلویندر کو گورنمنٹ کواٹرس ہاسپٹل لایا گیا جہاں اس کی حالت بگڑنے لگی۔ اسے اپولو ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں علاج کے دوران وہ مرگیا۔[3]

مذہبی منافرت کا مظاہرہ[ترمیم]

بلویندر سنگھ نے جب ایک آٹو ڈرائیور پر حملہ کیا تھا، تب اس نے آٹو ڈرائیور کو اس کی گاڑی سے باہر کھینچ کر نکالا تھا۔ آٹو میں صرف ایک اسکولی بچہ تھا، جسے ڈرائیور نے فرار ہونے کے لیے کہا۔ بلویندر نے ڈرائیور سے پوچھا کہ اس کے بال لمبے کیوں نہیں ہیں؟ ہندو دیوی دُرگا خون کیوں پیتی ہے؟ یہ پوچھتے ہوئے وہ تلوار سے ڈرائیور کے سر پر حملہ آور ہوا۔ ڈرائیور نے بڑی مشکل سے ہاتھ آگے کر کے خود کا دفاع کیا، حالانکہ اس دوران وہ زخمی بھی ہو گیا تھا۔[4]

مقامی سکھوں کا احتجاج[ترمیم]

کریم نگر کے سکھ نوجوان اس قتل کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئے۔ ان کا دعوٰی تھا کہ گولی چلانا بالکل ہی غلط تھا اور اگر یہ بلویندر کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہی تھا تو گولی کو چلاکر بلویندر کے جسم کے نچلے حصے کو نشانہ بنانا چاہیے تھا۔[3]

ریاستی حکومت کی فوری کارروائی[ترمیم]

مقامی میئر رویندر سنگھ نے تلنگانہ کے ریاستی وزیر رویندر سے صلاح و مشورہ کر کے حسب ذیل راحتی پیکیجز کا اعلان کیا:

  1. متوفی کے لیے پانچ لاکھ کا معاوضہ۔
  2. متوفی کے والدین کے علاج کے جملہ اخراجات ریاستی حکومت برداشت کرے گی۔
  3. دو بیڈروم، ہال اور باورچی خانے کا ایک فلیٹ حکومت کی جانب سے متاثرہ خاندان کو دیا جائے گا۔

ان اعلانات کے ساتھ ہی مذکورہ احتجاج ختم ہو گیا۔[5]

بلویندر سنگھ اور اخلاق سیفی کے قتل[ترمیم]

بلویندر سنگھ اور اخلاق سیفی، دونوں ہی اقلیتی فرقوں سے وابستہ بھارتی شہری تھے۔ اخلاق سیفی کے قتل کا تفصیلی ذکر دادری میں بلوا، 2015ء میں موجود ہے جبکہ بلویندر سنگھ کے قتل کی جملہ تفصیلات کا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔ ذیل کے جدول میں ان دونوں سانحوں کا تقابل کیا گیا ہے :

شمار اخلاق سیفی کا قتل بلویندر سنگھ کا قتل
1 اس قتل کی وجہ دادری کے مقامی بھارتیہ جنتا پارٹی رکن کی جانب سے مقامی عوام کو اکسانا ہے اس قتل کی وجہ بلویندر کا اپنے ماں باپ پر حملہ اور مقامی عوام اور پولیس پر حملے کے ذریعے دہشت پھیلانا ہے۔
2 اخلاق سیفی کو گاؤکشی کے غلط الزام میں قتل کیا گیا۔ بلویندر کو اس وقت گولی ماردی گئی جب وہ آپے سے باہر ہو کر ایک ہیڈ کانسٹیبل کا قتل کرنے جا رہا تھا۔
3 اخلاق سیفی نے کسی مذہب پر انگشت نمائی نہیں کی۔ بلویندر نے ایک آٹو ڈرائیور کے روبرو اس کے مذہبی عقائد کو نشانہ ملامت بناتے ہوئے حملہ کیا۔
4 اخلاق سیفی کے معاملے میں حالات سے مجبور ہونے کے باوجود اس کی موت کا معاوضہ صرف دس لاکھ دیا گیا۔ بلویندر کی خودساختہ دہشت کے باوجود اس کی موت کا معاوضہ پانچ لاکھ دیا گیا اور دو بیڈروم، ہال اور باورچی خانے کے فلیٹ کا وعدہ کیا گیا جس کی مالیت ادا کردہ رقم سے کہیں زیادہ ہے۔
5 اخلاق سیفی کے زخمی بیٹے دانش کے علاج اور معاوضے کے لیے کوئی رقم الگ سے نہیں دی گئی حالانکہ وہ بھی جنونی ہجوم کا معصوم شکار تھا۔ اپنے ہی بیٹے کے ہاتھوں زخمی ماں باپ کے علاج کے پورے اخراجات اٹھانے حکومت آگے آگئی۔
6 ملک گیر سطح پر احتجاج کیا گیا اور نین تارا سہگل اور کئی ساہتیہ اکیڈمی انعام یافتگان نے اپنے اعزازات لوٹا دیے۔ بلویندر کے معاملے میں صرف مقامی سکھ فرقے کا احتجاج حکومت کو ایک دن میں حرکت میں لانے میں کامیاب رہا۔
7 اخلاق سیفی کے رشتے دار اتر پردیش کے وزیر اعلٰی سے مل کر (غالبًا خوف کی وجہ سے ) تحقیقات بند کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ تشدد کے نقطہ آغاز اور محرک کے بالکل واضح ہونے کے باوجود کریم نگر کے ایک فرقے سے وابستہ مقامی افراد بلویندر پر گولی چلانے والے پولیس افسر پر سخت کارروائی کے خواہش مند ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "A Brilliant Student All Through", The Hindu, دسمبر 23, 2015
  2. "We stopped him, he got angry: Dad", Deccan Chronicle, دسمبر 24, 2015
  3. ^ ا ب "Sikhs take to the street against gunning down of the techie", The Hindu, دسمبر 23, 2015
  4. "Auto driver recalls dreadful moments", The Hindu, دسمبر 23, 2015
  5. "Protest called off", The Hindu, دسمبر 23, 2015

خارجی روابط[ترمیم]