آدم بن ابی ایاس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت آدم بن ابی ایاسؒ
(عربی میں: آدم بن أبي إياس ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 132ھ
بغداد
وفات سنہ 836ء (86–87 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بمقام عسقلان
عملی زندگی
پیشہ محدث ،  مفسر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت آدم بن ابی ایاسؒ کا تبع تابعین میں شمار ہوتا ہے۔

نام ونسب[ترمیم]

نام آدم اورکنیت ابو الحسن تھی، جتنا نسب نامہ معلوم ہو سکا وہ یہ ہے آدم بن ابی ایاس عبد الرحمن بن محمد[2] لیکن خطیب بغدادی اوربعض دوسرے محققین نے ان کے باپ کا نام ناہیہ اورجد امجد کا شعیب بتایا ہے،امام بخاری نے جنہیں ابن ابی ایاس سے تلمذ خاص کا شرف حاصل ہے،اول الذکر ہی کو اختیار کیا ہے [3]یہ نسلاً تمیمی نہیں تھے؛بلکہ آقا کے خاندان کی نسبت سے تمیمی کہلاتے ہیں۔

ولادت اوروطن[ترمیم]

132ھ میں پیدا ہوئے،مرو(خراسان) کے رہنے والے تھے،لیکن نشو و نما بغداد میں پائی، پھر علم و فضل میں باکمال ہونے کے بعد عسقلان کو وطنِ ثانی بناکر وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی،اسی بنا پر عسقلانی کہلاتے ہیں۔ [4]

علمی[ترمیم]

وہ تمام عمر فنا فی العلم رہے،جہاں کہیں بھی انھیں کسی چشمہ علم کا پتہ چلا راہ کی تمام صعوبتیں برداشت کرکے وہاں پہنچے اورسیرابی حاصل کی،ابتدا میں انھوں نے شیوخ بغداد سے استفادہ کیا،اس کے بعد تشنگی علم نے انھیں وقت کے دوسرے ممتاز علمی مراکز تک پہنچایا؛چنانچہ انھوں نے کوفہ،بصرہ ،حجاز اورشام کی رہ نوردی کرکے وہاں کے ماہر فن اساتذہ کے باغِ علم سے خوشہ چینی کی،امامِ زمانہ شعبہ بن الحجاج سے تلمذ خاص کا شرف رکھتے تھے۔ [5] حفظ اورثقاہت وتثبت میں بھی جلیل المرتبت تھے،امام شعبہ کی مجلس درس میں جو سات علما روایات کو ضبطِ تحریر میں لاتے تھے ان میں ابن ابی ایاس سب سے ممتاز تھے۔[6]حافظ ذہبی انھیں "المحدث الامام الزاھد"لکھتے ہیں۔ [7]

قرآن[ترمیم]

علومِ قرآن کی کامل معرفت اورمختلف قرأتوں سے بہرہ وافر رکھتے تھے،طلبہ کو اس کا درس بھی دیا کرتے تھے۔[8]

حدیث[ترمیم]

حدیث میں انھیں جن شیوخ سے سماع اوراکتساب فیض کا موقع ملا تھا ان کی فہرست خاصی طویل ہے،کیوں کہ انھوں نے بغداد کے علاوہ دوسرے مقامات کے اساتذہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، ممتاز اورلائقِ ذکر علما میں امام شعبہ کے علاوہ ابن ابی ذئب،اسرائیل بن یونس،لیث بن سعد،اسمعیل بن عیاش،ربیع بن صبیح،حماد بن سلمہ، مبارک بن فضالہ،ابو معثر المدنی ،عبد اللہ بن مبارک،ابی خالد الاعمر اور بقیہ بن الوللید خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ [9] اسی طرح خود ان کے دبستانِ علم سے بھی ایک بڑی جماعت نے گل چینی کی ہے،جن میں امام بخاری،ابوزرعہ،ابو حاتم،ابراہیم بن ہانی النیساپوری،امام دارمی،عبید بن آدم،اسحاق بن اسمعیل جیسے ائمہ اعلام کے نام شامل ہیں۔ [10]

ثقاہت[ترمیم]

اکثر علما نے ان کی ثقاہت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے، ابو حاتم کا قول ہے ثقۃٌ مامونٌ متعبدٌ [11] سلمان الاسعت ابن معین اورعجلی نے بھی بصراحت ان کی توثیق کی ہے،علامہ ابن اثیر کان ثقۃً حافظاً لکھتے ہیں۔ [12]

عبادت اوراتباعِ سنت[ترمیم]

جلالتِ علم کے ساتھ صلاح وتقویٰ کے بھی پیکر مجسم تھے،ابن عماد نے لکھا ہے کہ وہ صالح اوراللہ کے فرماں بردار تھے [13]خطیب بغدادا ،رقمطراز ہیں کان احد عباد اللہ الصالحین [14] عجلی کا قول ہے وہ اللہ کے بہترین بندے تھے۔[15] علامہ ابن جوزی انھیں صاحب صلاح اورمتبعِ سنت قرار دیتے ہیں [16] ابن ابی ایاس اتباعِ سنت کا مثالی نمونہ تھے،ان کا ہر عمل اسی سانچہ میں ڈھلا ہوتا تھا،خطیب ر قمطراز ہیں: کان آدم مشہور بالسنۃ شدید التمسک بھا والحض علیٰ اعتقادھا [17] آدم بن ایاس اتباعِ سنت میں شدت کے لیے مشہور ہیں۔

فتنہ خلقِ قرآن میں ان کا موقف[ترمیم]

مامون اورمعتصم کے عہد خلافت کا بدنام زمانہ خلقِ قرآن ابن ابی ایاس کی وفات سے دوسال قبل ہی شروع ہو چکا تھا،مرکزِخلافت سے بہت دور عسقلان میں گوشہ گیر ہونے کی وجہ سے وہ اس فتنہ کی آنچ سے محفوظ رہے،لیکن اس مسئلہ میں ان کا مؤقف بہت واضح تھا؛بلکہ اپنے عقیدہ میں ان کا تشدد اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ خلقِ قرآن کے قائلین کو سلام کرنا اورجواب دینا بھی پسند نہ فرماتے تھے۔ ابوبکر اعین اسی قسم کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بغداد سے ابن ابی ایاس کی خدمت میں عسقلان حاضر ہوا اورعرض کیا کہ لیث بن سعد کے کاتب عبد اللہ بن صالح نے آپ کو ہدیہ سلام پیش کیا ہے،فرمایا میری طرف سے سلام کا جواب نہ کہنا، عرض کیا کیوں،ایسی کیابات ہے؟فرمایا اس لیے کہ خلقِ قرآن کا عقیدہ رکھتے ہیں،راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے انھیں ابن صالح کی ندامت وشرمندگی،عذر خواہی اوررجوع کی خوش خبری سنائی تو ابن ابی ایاس نے فرمایا کہ اب میری جانب سے بھی ان کو بہت بہت سلام کہنا۔ اس کے بعد راوی مذکور بیان کرتے ہیں کہ میں عسقلان میں کچھ دنوں قیام کے بعد بغداد واپس ہونے لگا تو ابن ابی ایاس نے فرمایا احمد بن حنبل سے سلام کے بعد کہنا کہ آپ اس وقت جس سخت ابتلا سے گذر رہے ہیں اسے آپ تقرب الی اللہ کا وسیلہ بنائیے،بلاشبہ اس وقت آپ جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں،نیز ان سے میری طرف سے یہ حدیث بھی بیان کردینا کہ رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے: من ارادکم علی معصیۃ اللہ فلا تطیعوہ جو تم سے اللہ کی معصیت کا خواہاں ہو ،اس کی اطاعت نہ کرو چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ میں بغداد کے قید خانہ میں امام احمد بن حنبل سے ملا اورابن ابی ایاس کا پیغام اورحدیث ان تک پہنچادی،اسے سُن کر امام موصوف تھوڑی دیر سر جھکائے رہے اورپھر فرمایا: رحمۃ اللہ حیا ومیتا ولقد احسن النصیحۃ [18] اللہ ان پر زندگی اور موت کے بعد رحم فرمائے انھوں نے بڑی اچھی نصیحت کی۔ وفات جمادی الاُخریٰ 230ھ میں بمقام عسقلان رحلت فرمائی،یہ معتصم باللہ عباسی کی خلافت کا زمانہ تھا،انتقال کے وقت ان کی عمر 88 سال تھی۔ [19] ابو علی المقدسی کہتے ہیں کہ جب امام موصوف کا وقت آخری نزدیک آگیا تو انھوں نے قرآن پاک کا ایک ختم کیا اورموت سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ میں تو آج کے دن کا شدت سے منتظر تھا اور تمھاری راہ دیکھ رہا تھا۔ پھر لا الہ الا اللہ پڑھا اور رُوح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ [20]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://catalog.perseus.tufts.edu/catalog/urn:cite:perseus:author.1813 — اخذ شدہ بتاریخ: 25 فروری 2021
  2. (تہذیب التہذیب:1/196)
  3. (تاریخ بغداد:7/27)
  4. (کتاب الانساب:390)
  5. (تاریخ بغداد:7/3)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:1/375)
  7. (ایضاً)
  8. (تاریخ بغداد:7/27)
  9. (ایضاً،وتذکرۃ الحفاظ:1/375)
  10. (تہذیب :4/380)
  11. (شذرات الذہب:2/47)
  12. (اللباب فی الانساب:2/136)
  13. (اللباب فی الانساب:2/136)
  14. (تاریخ بغداد:7/27)
  15. (تذکرۃ الحفاظ الذہبی:1/375)
  16. (صفوۃ الصفوۃ:4/480)
  17. (تاریخ بغداد:7/28)
  18. (تاریخ بغداد:7/28،29)
  19. (طبقات ابن سعد:7/186)
  20. (صفوۃ الصفوۃ:4/280)