کیلاش مندر
چٹان کے اوپر سے منظر | |
مقام | |
ملک | بھارت |
ضلع | اورنگ آباد |
محل وقوع | ایلورا |
متناسقات | 20°01′26″N 75°10′45″E / 20.02389°N 75.17917°E |
تاریخ | |
تخلیق کار | ممکنہ طور پر کرشن اول (756ء-773ء) |
کیلاش مندر بھارت میں چٹان کو کاٹ کر بنایا گیا ایک ہندو مندر ہے۔ یہ ایلورا، مہاراشٹر، بھارت میں واقع ہے۔ یہ صرف ایک چٹان سے بنایا گیا ہے۔ اس مندر کو بنانے کے لیے چٹان سے 2 لاکھ ٹن پتھر کاٹے گئے تھے۔ کیلاش مندر چٹانوں سے بنائے گئے غاروں کے 34 مندروں میں سے ایک ہے۔ یہ ان میں سے 16 واں غار کا مندر ہے۔ کیلاش مندر کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔یہ مندر ہندو بھگوان شیو کے نام منسوب کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ مندر آٹھویں صدی میں بنایا گیا تھا۔دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ یہ مندر کئی دہائیوں میں تعمیر ہوا تھا لیکن حقیقت میں صرف 18 سال میں بنا تھا۔ یہ مندر ایتھنز میں ایکروپولیس اور پارتھینن سے دوگنے علاقے پر پھیلا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی بڑی عمارتوں میں کیا جاتا ہے۔ اس مندر کی تعمیر میں پالاوا اور چالوکیا طرز کے آثار ملتے ہیں۔
تاریخ[ترمیم]
کیلاش مندر میں ایسے نقوش یا نشانات کی کمی ہے، جس سے اس مندر کے سال تعمیر کے بارے میں پتا چلتا ہو لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ مندر راشتراکوتا کے فرمانروا نے بنائے تھے۔ [1] مندر میں ملنے والے کچھ شواہد کے مطابق اس مندر کا تعلق کرشن راجا (Krishnaraja) یا Kṛṣṇarāja):[1][2]سے ہے۔
طریقہ تعمیر[ترمیم]
کیلاش مندر کو تعمیر کرنے کے لیے معماروں سے اسے اوپر سے تعمیر کرنا شروع کیا۔ یہ مندر ایک چٹان پر مشتمل ہیں۔ معماروں سے سب سے پہلے چٹان کے اوپری حصے کو تراش کر مندر کا اوپری حصہ بنایا۔
تعمیر[ترمیم]
یہ مندر ان طریقوں سے ہٹ کر بنایا گیا ہے، جس سے پہلے سطح مرتفع دکن کے مندر بنائے جاتے تھے۔
-
سامنے کا منظر
-
سکھارا(Shikhara)
-
چھت
-
آرکیڈز
-
ستون
-
رامائن پینل
-
مہابھارت پینل
اس مندر کے صحن میں مرکزی عبادت گاہ بنائی گئی ہے، جسے شِیو سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس مندر کی عمارت کے ساتھ پانچ الگ سے عبادت گاہیں بھی ہیں۔ ان میں سے تین دریاؤں کی دیویوں کے نام سے ہیں۔ یہ گنگا، جمنا اور سرسوتی دیویوں کے نام سے ہے۔[3]
مزید دیکھیے[ترمیم]
حوالہ جات[ترمیم]
- ^ ا ب Deepak Kannal 1996, p. 101.
- ↑ Lisa Owen 2012, p. 135.
- ↑ "Section II: Periodic Report on the State of Conservation of Ellora Caves, India, 2003" (PDF)۔ UNESCO۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 مارچ 2016