ملک زادہ منظور احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملک زادہ منظور احمد
معلومات شخصیت
پیدائش (1929-10-17) 17 اکتوبر 1929 (عمر 94 برس)
فیض آباد ضلع
وفات اپریل 22، 2016(2016-40-22) (عمر  86 سال)
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش بھارت
عملی زندگی
پیشہ مدیر رسالہ امکان، اردو پروفیسر، مصنف، مشاعروں کی نظامت

ملک زادہ منظور احمد اردو کے مصنف، شاعر، نقاد، پروفیسر اور مشاعروں میں اپنے منفرد فن نظامت کے لیے شہرت رکھتے تھے۔

پیدائش[ترمیم]

ملک زادہ منظور احمد 17 اکتوبر، 1929ء کو بھارت کے فیض آباد ضلع کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کاخاندان ایک سادات گھرانہ تھا۔[1]

تعلیم[ترمیم]

ملک زادہ نے تین مختلف شعبوں، یعنی انگریزی، تاریخ اور اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد: فکروفن کے عنوان سے مقالہ تحریر کرکے پی ایچ ڈی مکمل کی۔[1]

ملازمت[ترمیم]

ملک زادہ 1951ء میں جی وی ایس کالج، مہاراج گنج میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ 1952ء میں وہ جارج اسلامیہ کالج، گورکھپور میں تاریخ کے لیکچرر بنے۔ اس کے بعد 1964ء تک وہ انگریزی ادبیات کے لیکچرر بنے۔ 1964ء سے 1968ء تک ریڈر، صدر شعبہ اور پروفیسر بنے۔ وہ 1990ء میں لکھنؤ یونیورسٹی سے وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔[1]

دیگر عہدے[ترمیم]

  • مدیر، رسالہ امکان۔ یہ ایک ماہنامہ کی شکل میں شروع ہوا۔ اس میں منظور ایک کالم کسک کے عنوان سے لکھتے جو بہت مشہور ہوا۔ اسی کالم میں ایک بار منظور نے لکھا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ امکان ان کی زندگی میں بند نہ ہو[2]
  • صدر، آل انڈیا اردو رابطہ کمیٹی۔
  • صدر، فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ۔
  • رکن، ایگزیکیٹیو کمیٹی، لکھنؤ یونیورسٹی۔[3]

تخلیقات[ترمیم]

  • کالج گرل، 1954ء (ناول)۔
  • اردو کا مسئلہ (مقالہ)، 1957ء۔
  • سحر سخن، 1961ء، (مجموعہ کلام)
  • ابوالکلام آزاد: فروفن، 1964ء (تحریروں کا تنقیدی جائزہ)
  • ابوالکلام آزاد الہلال کے آئینے میں۔
  • غبارخاطر کا تنقیدی جائزہ۔
  • سحر ستم (مجموعہ کلام)
  • رقص شرر، 2004ء (خود نوشت سوانح حیات) [3]: اس کتاب کے مطالعے سے اُس دور کی ادبی تہذیب کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں خاص شاعرات کے مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اس طرح کا پہلا مشاعرہ منظور کی کوششوں سے گورکھپور میں منعقد ہوا تھا۔ شاعرات بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر مشاعرے میں آتی تھیں۔ یہ لوگ دلکش ترنم سے سطحی اور غیر معیاری غزلیں پڑھا کرتی تھیں جن کا خالق کوئی اور ہوا کرتا تھا۔[2]
  • انتخات غزلیات نظیر اکبر آبادی (منتخب غزلیں)
  • 200 کتابوں کے پیش لفظ [3]

اعزازات[ترمیم]

  • زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے اترپردیش اردو اکادمی کا اعزاز
  • اترپردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ برائے فروغ اردو
  • زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا اعزاز
  • آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے امتیاز میراعزاز
  • آل انڈیا میر اکیڈمی کی جانب سے افتخاز میراعزاز
  • زندگی بھر اردو ادب میں تعاون کرنے کے لیے خدابخش کتب خانے کا اعزاز
  • مے کش اکبرآبادی ایوارڈ
  • ہری ونش رائے بچن ایوارڈ
  • صوفی اجمل اختر ایوارڈ
  • عالمی اردو کانفرنس، نئی دہلی کی جانب سے فراق سمان
  • زندگی بھر کی کامیابیوں کے لیے مومن خان مومن اعزاز
  • گریٹر شکاگو کی سابق عثمانیہ یونیورسٹی کے سابقہ طلبا کی جانب سے فخر اردو ایوارڈ
  • پریاگ کوی سمیلن کی جانب سے ساہتیہ سرسوت ایوارڈ۔[3]
  • ""ملک زادہ منظور احمد: شخصیت اور فن"" کے نام سے ان کی سوانح حکیم نازش احتشام اعظمی نے لکھی جس کا سن اشاعت 2016ء ہے،

وفات[ترمیم]

22 اپریل 2016ء کو بعمر 86 سال لکھنؤ میں فوت و دفن ہوئے ،

نمونہ کلام[ترمیم]

[4]
نہ خوفِ برق نہ خوفِ شرر لگے ہے مجھے خود اپنے باغ کے پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں کہیں ہو جلتا مکاں، اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں ایک جام ہوں کس کس کے ہونٹ تک پہنچوں غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے
تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینہ منظور کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ آبروئے نظامت ملک زادہ منظور، ڈاکٹر ماجد دیوبندی، روزنامہ سیاست، حیدرآباد، مئی 7، 2016ء
  2. ^ ا ب "ملک زادہ منظور احمد: ایک بے باک قلم کار" از بی بی سریواستو رند، ماہنامہ سب رس، حیدرآباد، جون 2016ء، صفحات 13-16
  3. ^ ا ب پ ت Dr. Malik Zada Manzoor Ahmad - Sher-O-Sukhan
  4. رنگ اردو Rung E Urdu: نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے