شکست آرزو

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شکست آرزو پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین، جو سقوطِ مشرقی پاکستان (16 دسمبر 1971ء) سے پہلے معروف ترین ڈھاکہ یونیورسٹی کے آؒخری وائس چانسلر تھے، کی کتاب"The Wastes of Time" کا اردو ترجمہ ہے جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی نے شائع کیا ہے۔[1]

تعارف[ترمیم]

اس کتاب کے مترجم محمد ابراہیم خان ہیں جبکہ نظر ثانی کے فرائض احمد جمال اعجازی نے ادا کیے ہیں۔ شکستِ آرزو کو پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین کی داستانِ حیات کہا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر سید سجاد حسین کی کتاب دسمبر 1994ءمیں اس وقت شائع ہوئی، جب ان کی عمر تقریباً 74 برس کے قریب تھی۔19 ابواب پہ مشتمل کتاب میں بارہ مختلف ضمیمے بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں قراردادِ لاہور سے بنگال کی تاریخ اور تحریکِ آزادیٰ پاکستان کے اہم سنگِ ہائے میل بھی زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔پروفیسر سجاد حسین نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور زندگی کے آخری لمحوں تک اس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے بنگلہ زبان میں ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ جریدہ بھی جاری کیا۔ 1949 میں کلکتہ میں اسلامیہ کالج میں انگریزی کے لیکچرار بنے اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزاری۔ ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی، راج شاہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے، سقوط ڈھاکا سے چند ماہ قبل ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ 1995ءمیں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔

موضوع[ترمیم]

یہ داستانِ حیات تحریکِ پاکستان، قیام پاکستان اور پھر 1971ءمیں سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے ایک دستاویز ہے جو ڈاکٹر سجاد حسین کی تلخ یادوں سے مزین ہے، جو فلم کی طرح قاری کی نظروں سے گذر جاتی ہیں۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں نفرت بپا کرنے والے الزامات کی حقیقت بھی بیان کی کہ کس طرح سے حقائق کو مسخ کر کے اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور مغربی پاکستان سے گئے ہوئے سول اور فوجی افسران پر مشتمل انتظامیہ کو جابر اور ظالم ثابت کر کے لوگوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے گئے۔انھوں نے کتاب میں وہ راز بھی آشکار کیے ہیں کہ کس طرح سے شیخ مجیب الرحمن کی سرکردگی میں مٹھی بھر لوگ بھارتی لابی کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور بھارتی ایجنڈے کی تکمیل میں ایک کٹھ پتلی کی طرح کام کرتے رہے۔ انھیں بہر کیف اپنی خدمات کا پورا پورا معاوضہ بھی ملا۔ ”شکستِ آرزو“ کے ذریعے بقول مصنف انھوں نے اُن سازشوں کا پردہ فاش کیا ہے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوئیں۔بقول مصنف جب مکتی باہنی بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ اور بھارتی فوج کے ہاتھوں میں کھیل رہی تھی اور ان کی سرپرستی میں مشرقی پاکستان میں تعینات سول اور فوجی حکام کے خلاف نبرد آزما تھی، اس وقت ڈاکٹر سجاد حسین ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ پھر جس طرح سے ایک روز مکتی باہنی کے اشاروں پر ناچنے والے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے اپنی ہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ان کے بچوں کے سامنے جانوروں کی طرح گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکالا، یونیورسٹی میں ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک کمرے میں بند کر دیا اور نیم برہنہ حالت میں ان پر تشدد کیا اور ان پر خنجر کے وار کر انھیں ”مردہ“ جانتے ہوئے ڈھاکہ کے ایک چوراہے میں پھینک دیا، جیسے دلخراش واقعات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ بعد ازاں انھیں راہ گیر ہسپتال لے گئے، وہاں سے انھیں جیل کی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بقول مصنف ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پاکستان کے شیدائی تھے، انھوں نے قیامِ پاکستان کے وقت لوگوں کو کٹتے مرتے دیکھا تھا ۔ وہ آپس کے معاملات خود مل بیٹھ کر حل کرنے کے خواہاں تھے اور دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے اپنی ہی سرزمین پر کھلواڑ نہیں چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کسی بھی پڑھے لکھے اور باشعور فرد کی یہی سوچ ہو سکتی تھی، لیکن بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی مکتی باہنی تو اپنے ایجنڈے کی تکمیل بہرصورت چاہتی تھی اوراس کے لیے انھیں ہر حال میں ہر رکاوٹ کو عبور کرنا تھا۔ ڈاکٹر سید سجاد حسین بھی ایک رکاوٹ قرار پائے، جس کی انھیں قرار واقعی سزا دی گئی۔ پروفیسر سجاد حسین کے خیال میں پاکستان کے سیاست دان کوتاہ نظر بھی تھے اور حقائق بیان کرنے کے معاملے میں سنجیدہ بھی نہ تھے اس لیے مشرقی پاکستان کی معاشی پس ماندگی میں مغربی پاکستان کا ہاتھ ہونے کے حوالے سے عائد کیے جانے والے الزامات کا ثبوت اور شواہد کے ساتھ توڑ نہیں کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں متعین مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسروں کا اپنے بنگالی ہم مرتبہ افراد سے اور عام لوگوں سے تحقیر آمیز رویہ بھی بنگالی قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دینے کا باعث بنا۔

اقتباس[ترمیم]

کتاب کے صفحہ 326 پر ڈاکٹر سید سجاد حسین لکھتے ہیں:

پاکستان کے خلاف کام کرنے والے طالب علم رہنماو¿ں سمیت شیخ مجیب الرحمن کا ہر ساتھی اب ارب پتی بن چکا ہے، جن لوگوں کی کوئی ملازمت نہیں تھی، آمدنی کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا اور گزارے کے لیے پارٹی فنڈز پر انحصار کرتے تھے، وہ پاکستان سے علیحدگی کے بعد کارخانوں، حتیٰ کہ بنکوں کے مالک بن کر اُبھرے ہیں۔ 1970ءکے عشرے میں قلاش نوجوانوں نے بیرونِ ملک بنکوں میں اکاؤنٹس کھلوائے ہیں، برطانیہ اور امریکہ میں املاک خریدی ہیں اور ڈھاکہ و دیگر بنگلہ دیشی شہروں کے بہترین رہائشی علاقوں میں پُر تعیش مکانات خریدے ہیں۔ 1970ءمیں عوامی لیگ کا ساتھ دینے والے سابق پاکستانی فوجی افسران بھی اب مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو سابق فوجی افسران اس وقت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی کابینہ کا حصہ ہیں، وہ سب سے نمایاں پوزیشن میں ہیں اور دولت کے معاملے میں بھی ان کا ثانی کوئی نہیں

۔”شکست آرزو“ کے صفحہ 328 کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:

بنگلہ دیش کی جو نئی نسل سکولوں، کالجوں اور جامعات میں پڑھ رہی ہے، اس کے ذہن میں یہ بات انڈیلی جا چکی ہے کہ پاکستان ایک بھیانک خواب تھا۔جن لوگوں نے آخری دم تک پاکستان کا ساتھ دیا اور 1972ءسے 1975ءکے دوران میں شیخ مجیب کے بے رحمانہ کریک ڈاؤن سے کسی نہ کسی طور بچ گئے، انہیں معاشرے میں اچھوت کا سا درجہ دے دیا گیا، جن پر وطن کے معاملات میں بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ میجر جلیل نے 1971ءمیں عوامی لیگ کا ساتھ دیا، مگر جب اس نے دیکھا کہ پاکستان کا تقریباً تمام فوجی سازو سامان ٹرکوں میں لاد کر بھارت بھیج دیا گیا ہے تو اس نے صدائے احتجاج بلند کی، مگر ایسا کرنا اس کا جرم بن گیا۔ بھارتی سازش بے نقاب کرنے کی پاداش میں اسے غدار قرار دیا گیا۔ آزادی کے حقیقی سپاہیوں کی فہرست سے میجر جلیل کا نام خارج کر دیا گیا ہے

تنقید[ترمیم]

شکستِ آرزو شرمیلا بوس کی کتاب"Dead Reckonig" کی طرح ایک ایسی دستاویز ہے، جس نے سچ سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ پروفیسر سجاد حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی کہانی انھوں نے اپنی کتاب ’’شکستِ آرزو‘‘ میں بیان کی ہے۔ یہ ان پر بیتی کی کہانی ہی نہیں ہے ایک ملک کے دو ٹکڑے ہو جانے کی المناک داستان بھی ہے۔ یہ ظلم اور بربریت، بے لگام ہوس اقتدار، بے شرم منافقت اور سیاسی بصیرت کے شدید فقدان کی کہانی ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تنہائی کے بے درد لمحوں میں لکھی گئی ہے۔ وہ ڈھاکا جیل میں جب اپنی یاد داشتیں لکھ رہے تھے تو انھیں یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی جیل سے باہر جا سکیں گے، لیکن جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’’خاصے تذبذب کے بعد میں نے اپنی یادوں کے سہارے چند واقعات قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا، جیل کی چار دیواری میں جو گھٹن اور بے زاری شدت سے محسوس ہو رہی تھی اس سے نکلنے کا یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا۔"

”شکستِ آرزو“ میں دیے گئے حقائق سے بخوبی آگاہی ہوتی ہے کہ کس طرح سے بھارتی عناصر کو شیخ مجیب اینڈ پارٹی پر غلبہ حاصل تھا۔ پاکستان کے خلاف ایک ہرزہ سرائی یہ بھی کی جاتی ہے کہ 9 ماہ جاری رہنے والے ایک کریک ڈاؤن میں پاکستانی فوج نے 30 لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ یہ الزام کتنا مضحکہ خیز ہے، اس کا اندازہ کتاب کے صفحہ نمبر 333 پر دی گئی ان سطروں سے ہوتا ہے:”ڈھاکہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ”مارننگ سن“ کے ایڈیٹر نور الاسلام، جو پاکستان کے حمایتی نہیں تھے، مگر انھیں بھی کہنا پڑا کہ3 ماہ میں 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کو یقینی بنانے کے لیے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا“۔۔۔۔اس صفحے پر آگے چل کر ڈاکٹر سجاد حسین لکھتے ہیں: ”بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کے دور میں اس نوعیت کا ایک سروے کیا گیا تھا، مگر ابتدائی نتائج ”حوصلہ افزا“ برآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ سروے ترک کر دیا گیا“۔۔۔۔گویا 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کے الزام کو شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کا حکمران بن کر بھی ثابت نہیں کر سکا۔ اکتوبر 2012ءمیں ”شکستِ آرزو“ کے نام سے شائع ہونے والی کتاب ”دیر آید درست آید“ کے مصداق ایک ایسی کتاب ہے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے حقائق کو سامنے لانے کا باعث بنی ہے۔

حوالہ جات[ترمیم]

مصادر[ترمیم]

  1. http://www.sanipanhwar.com/The%20Wastes%20of%20Time%20by%20Syed%20Sajjad%20Hussain.pdfاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  2. http://www.storyofbangladesh.com/ebooks/wastes-of-time/113-preface.htmlاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  3. en:Syed Sajjad Hussainاخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  4. https://yourpakistan.wordpress.com/2012/12/17/fall-of-dahka/اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  5. http://en.banglapedia.org/index.php?title=Hussain,_Syed_Sajjadاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  6. https://www.revolvy.com/page/Syed-Sajjad-Hussainاخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  7. http://zarbeazb.online/?books=%D8%B4%DA%A9%D8%B3%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%D8%B2%D9%88-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%D8%AC%D8%A7%D8%AF-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86-2اخذآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ zarbeazb.online (Error: unknown archive URL) شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  8. https://dailypakistan.com.pk/11-Feb-2013/34088اخذآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ dailypakistan.com.pk (Error: unknown archive URL) شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  9. https://www.express.pk/story/62011/اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  10. https://www.paknewslive.com/sakisht-arzoo/اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  11. https://en-gb.facebook.com/bookcornershowroom/photos/%D8%B4%DA%A9%D8%B3%D8%AA-%D8%A2%D8%B1%D8%B2%D9%88%D9%85%D8%B5%D9%86%D9%81-%D9%BE%D8%B1%D9%88%D9%81%DB%8C%D8%B3%D8%B1-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D8%B3%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%D8%AC%D8%A7%D8%AF-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86%D8%B3%D9%B9%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D9%B9-%D8%A8%DA%A9-%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%B1-%D8%B4%D9%88%D8%B1%D9%8F%D9%88%D9%85-%D8%AC%DB%81%D9%84%D9%85%D9%82%DB%8C%D9%85%D8%AA-500-%D8%B1%D9%88%D9%BE/474355679310621/اخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  12. https://www.nawaiwaqt.com.pk/29-Jun-2013/217305اخذآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nawaiwaqt.com.pk (Error: unknown archive URL) شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018
  13. ۔ http://www.alsharia.org/mujalla/2013/jan/arzu-irfan-bhattiاخذ[مردہ ربط] شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018