"محمد بن عبد اللہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
1 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.9.5
سطر 329: سطر 329:
مغربی مصنف [[مائیکل ہارٹ]] نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد {{درود}} کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد {{درود}} پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔<ref>سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ</ref>
مغربی مصنف [[مائیکل ہارٹ]] نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد {{درود}} کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد {{درود}} پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔<ref>سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ</ref>
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔
تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔
گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔<ref>http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 محمد {{درود}}۔ غیر مسلموں کی نظر میں</ref>
گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔<ref>http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 {{wayback|url=http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 |date=20110911205950 }} محمد {{درود}}۔ غیر مسلموں کی نظر میں</ref>


== مزید دیکھیے ==
== مزید دیکھیے ==

نسخہ بمطابق 06:57، 4 ستمبر 2023ء

کام جاری صارف: Tahir697

محمد ﷺ بن عبد اللہ
اسم محمدی خط ثلث میں
احمد، ابوالقاسم، ابوالطیب، نبی التوبہ، نبی الرحمۃ، بدر الدجی، نور الہدی، خیر البری، نبی المرحمۃ، نبی الملحمۃ، الرحمۃ المہداۃ، حبیب الرحمن، المختار، المصطفٰی، المجتبی، الصادق، المصدق، الامین، صاحب مقام المحمود، صاحب الوسیلۃ والدرجۃ الرفیعۃ، صاحب التاج والمعراج، امام المتقین، سید المرسلین، النبی الامی، رسول اللہ، خاتم النبیین، الرسول الاعظم، السراج المنیر، الرؤوف الرحیم، العروۃ الوثقی
پیدائش 9 ربیع الاول 53 ق.ھ ، 1 عام الفیل/ 22 اپریل 571ء (مشہور قول کے مطابق)
مکہ مکرمہ
وفات 12 ربیع الاول 11ھ / 8 جون 632ء
مدینہ منورہ
معظم در اسلام
بعثت رمضان 12ھ / اگست 610ء، غار حرا در مکہ مکرمہ
مرکز قیام مدینہ منورہ کی مسجد نبوی میں واقع حجرہ عائشہ
نسب اسماعیل بن ابراہیم کی نسل میں قریش عرب سے
والدہ آمنہ بنت وہب
والد عبدللہ بن عبدالمطلب
رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ
رضاعی والد حارث بن عبد العزی
اولاد نرینہ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم
صاحبزادیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ
ازواج مطہرات خدیجہ بنت خویلد، سودہ بنت زمعہ، عائشہ بنت ابوبکر، حفصہ بنت عمر، زینب بنت خزیمہ ام سلمہ، زینب بنت جحش، جویریہ بنت حارث، ام حبیبہ، صفیہ بنت حی، میمونہ بنت حارث، ماریہ القبطیہ (باختلاف اقوال)
مہر

ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (12 ربیع الاول عام الفیل / 8 جون 570ء یا 571ء – 12 ربیع الاول 10ھ / 8 جون 632ء) مسلمانوں کے آخری نبی ہیں۔ اہل اسلام کے نزدیک محمد تمام مذاہب کے پیشواؤں سے کامیاب ترین پیشوا تھے۔[1] آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی۔ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیا اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کی تمام مذہبی شخصیات میں سب سے کامیاب شخصیت تھے۔[2] 570ء (بعض روایات میں 571ء) مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں 632ء میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔ عربی زبان میں لفظ "محمد" کے معنی ہیں 'جس کی تعریف کی گئی'۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر 610ء میں ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔ جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے جو پہلا پیغام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پہنچایا وہ یہ ہے۔

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) -- القرآن
ترجمہ: پڑھو (اے نبی) اپنے رب کا نام لے کر جس نے پیدا کیا (1) پیدا کیا انسان کو (نطفۂ مخلوط کے ) جمے ہوئے خون سے (2)
سورۃ 96 ( الْعَلَق ) آیات 1 تا 2

یہ ابتدائی آیات بعد میں قرآن کا حصہ بنیں۔ اس واقعہ کے بعد سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسول کی حیثیت سے تبلیغ اسلام کی ابتدا کی اور لوگوں کو خالق کی وحدانیت کی دعوت دینا شروع کی۔ انہوں نے لوگوں کو روزقیامت کی فکر کرنے کی تعلیم دی کہ جب تمام مخلوق اپنے اعمال کا حساب دینے کے لیے خالق کے سامنے ہوگی۔ اپنی مختصر مدتِ تبلیغ کے دوران میں ہی انہوں نے پورے جزیرہ نما عرب میں اسلام کو ایک مضبوط دین بنا دیا، اسلامی ریاست قائم کی اور عرب میں اتحاد پیدا کر دیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے اور قرآن کے مطابق کوئی مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ ان کو اپنی جان و مال اور پسندیدہ چیزوں پر فوقیت نہ دے۔ قیامت تک کے مسلمان ان کی امت میں شامل ہیں۔

حلیہ

ابن عباس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ یوں بیان کیا: ڈیل ڈول، قد و قامت دونوں معتدل اور درمیانی تھے (جسم نہ زیادہ فربہ اور نہ دبلا پتلا، ایسے ہی قد نہ زیادہ لمبا اور نہ کوتاہ بلکہ معتدل) آپ کا رنگ کھلتا گندمی سفیدی مائل، آنکھیں سرمگیں، خندہ دہن، خوبصوورت ماہ تابی چہرہ، داڑھی نہایت گنجان جو پورے چہرہ انور کا احاطہ کئے سینہ کے ابتدائی حصہ پر پھیلی ہوئی تھی۔[3]

مقالات بسلسلۂ
محمد
محمد
باب محمد


صبح سعادت

تاریخ ادیان و ملل شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کے ظہور پر تقریباً چھ صدیاں گزر چکی ہیں اور معمورہ عالم خدا کے پیغمبروں کی معرفت حاصل کی ہوئی صداقت حق کو فراموش کر چکا ہے تمام کائنات انسانی خدا پرستی کے بجائے مظاہر پرستی میں مبتلا ہے اور ہر ملک میں نوع انسانی سے لے کر نوع جمادات تک کی پرستش سرمایہ نازش بنی ہوئی ہے کوئی انسان کو اوتار (خدا) کہہ رہا ہے تو کوئی خدا کا بیٹا۔ ایک اگر مادہ پرست ہے تو دوسرا خود اپنی آتما (روح) کو ہی خدا سمجھ رہا ہے سورج کی پوجا ہے چاند تاروں کی پرستش ہے حیوانوں ‘ درختوں اور پتھروں کی عبادت ہے ‘ آگ ‘ پانی ‘ ہوا ‘ مٹی کے سامنے ناصیہ فرسائی ہے غرض کائنات کی ہر شے پرستش اور پوجا کے لائق ہے اور نہیں ہے تو صرف ذات واحد قابل پرستش نہیں ہے نہ اس کی احدیت کا تصور خالص ہے اور نہ صمدیت کا۔ اس کو اگر مانا بھی جاتا ہے تو دوسروں کی پرستش اور عبادت کے ذریعہ وہ اگر خالق موجودات ہے تو دوسروں کے واسطہ اور احتیاج کے ساتھ مادہ ‘ روح اور ترکیب سب ہی باتوں کا محتاج ہے وہ اگر مالک موجودات ہے بھی تو انسان ‘ حیوان ‘ درخت ‘ پتھر کے بل بوتہ پر ‘ غرض ساری دنیا میں اصل کار فرمائی مظاہر کی تھی اور ” ذات حق “ صرف نام کے لیے ‘ حقیقت سے چشم پوشی تھی مگر مجاز کے ساتھ ذوق عشق ‘ ذات حق سے بعد تھا مگر مظاہر سے قربت ‘ سرمایہ سعادت حق سے بیگانگی تھی۔ مگر مخلوقات کی عبادت گزاری شعار عام تھا اور ہر طرف
{ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی } [4]
” ہم ان کو نہیں پوجتے مگر اس لیے تاکہ وہ خدا کی جانب ہماری قربت کا ذریعہ بن جائیں “
کا مظاہرہ نظر آتا تھا۔
یہی وہ تاریک دور تھا جس میں ” سنت اللہ “ یعنی خدا کے قانون ہدایت و ضلالت نے ماضی کی تاریخ کو پھر دہرایا اور غیرت حق نے فطرت کے قانون رد عمل (REACTION ) کو حرکت دی یعنی آفتاب ہدایت برج سعادت سے نمودار ہوا اور چہار جانب چھائی ہوئی شرک و جہالت اور رسم و رواج کی تاریکیوں کو فنا کرکے عالم ہست و بود کو علم و یقین کی روشنی سے منور کردیا۔

9 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کی صبح ‘ وہ صبح سعادت تھی۔جب مدنیت و حضارت سے محروم ‘ بن کھیتی کی سر زمین مکہ کے ایک معزز قبیلہ قریش (بنی ہاشم) میں عبداللہ بن عبد المطلب کے یہاں آمنہ بنت وہب کے مشکوئے معلی سے آفتاب رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہور کیا۔خدایا ! وہ صبح کیسی سعادت افروز تھی جس نے کائنات ارضی کو رشد و ہدایت کے طلوع کا مژدہ جانفزا سنایا اور وہ ساعت کیسی مبارک و محمود تھی جو معمورہ عالم کے لیے پیغام بشارت بنی ‘ عالم کا ذرہ ذرہ زبان حال سے نغمے گا رہا تھا کہ وقت آپہنچا کہ اب دنیائے ہست و بود کی شقاوت دور اور سعادت مجسم سے عالم معمور ہو ‘ ظلمت شرک و کفر کا پردہ چاک ہو اور آفتاب ہدایت روشن و تابناک ہو ‘ مظاہر پرستی باطل ٹھہرے اور خدائے واحد کی توحید مقصد حیات قرار پائے۔
دنیا تو کیا ملک قبیلہ اور خاندان کو بھی یہ علم نہ تھا کہ مذاہب عالم جس آفتاب رسالت کے طلوع ہونے کے منتظر ہیں وہ اس غیر متمدن سر زمین اور عبد المطلب کے گھرانے سے جلوہ گر ہوگا کہ اس کی ولادت باسعادت کو خاص اہمیت دیتے اور تاریخ ولادت کو اپنے سینہ میں محفوظ رکھتے مگر جس خالق کائنات کے نوشتہ تقدیر نے اس کو مقدس ہستی بنانے کا فیصلہ کیا اسی کے ید قدرت نے ولادت باسعادت کے لیے ایک معجزانہ تاریخی نشان بھی ظاہر کردیا اور وہ اصحاب الفیل کا واقعہ تھا۔ معتبر اور مستند روایات شاہد ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت اس واقعہ سے چند ماہ بعد ہوئی۔
یہ واقعہ جن خصوصیات کا حامل ہے ان کے پیش نظریہ عرب کے لیے عموماً اور اہل حجاز کے لیے خصوصاً نہایت عجیب اور حیرت زا تھا اور اس لیے وہ کبھی اس کو فراموش نہیں کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے اس کا نام ہی عام الفیل (یعنی ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا۔ مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دراصل یہ واقعہ ایک ” نشان “ ہے اس جلیل القدر ہستی کے ظہور کا جو ایک روز تمام معمورہ انسانی کو مرکز توحید اور قبلہ ابراہیمی پر جمع کر دے گی اور اس کو غیر اللہ (بتوں) کی آلودگیوں سے پاک کرکے توحید الٰہی کے نغموں کے لیے مخصوص کرائے گی۔ کیونکہ یہی وہ پہلا مقام ہے جو صرف خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنایا گیا۔
یہ مندر نہیں تھا کہ مورتی کی پوجا کی جائے ‘ یہ گرجا اور کلیسا بھی نہ تھا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام) اور کنواری مریم (علیہا السلام) کے مجسّموں کے سامنے سر جھکایا جائے ‘ نہ یہ آتش کدہ تھا کہ آگ کو نور کا مظہر قرار دے کر اس کی پرستش کی جائے اور نہ یہ صلوات یہود تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا بیٹا بنا کر اس کی تقدیس کے نغمے گائے جائیں بلکہ یہ تو خدا اور صرف ایک خدا کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا۔
{ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ } [5]
غرض بعثت کے بعد قدرت کے اعجاز نما ہاتھوں نے عام الفیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کا راز سر بستہ آشکارا کردیا تب دنیا نے یہ سمجھا کہ ابرہۃ الاشرم اور اس کے لشکر سے کعبۃ اللہ کی یہ حفاظت اس لیے تھی کہ وہ وقت قریب آپہنچا جب دوبارہ یہ مقدس مقام خدائے واحد کی عبادت اور توحید خالص کی مرکزیت کا شرف حاصل کرنے والا ہے پس جو طاقت بھی اس مقصد عظمیٰ سے متصادم ہوگی خود ہی پاش پاس ہو کر رہ جائے گی۔
ابرہہ عیسائی تھا اور اہل عرب (قریش) مشرک ‘ پھر کون کہہ سکتا ہے کہ ابرہہ اور اس کے لشکر کی بربادی قریش کی نصرت و حمایت کے لیے تھی ‘ نہیں ! بلکہ اس لیے سب کچھ ہوا کہ مشیت الٰہی کے خلاف ابرہہ کی خواہش تھی کہ یمن (صنعا) میں جو خوبصورت گرجا (القلیس) باپ ‘ بیٹا اور روح القدس (تثلیث) کے فروغ دینے کو بنایا گیا تھا۔
مرکز توحید ” کعبۃ اللہ “ کی جگہ وہ مرجع خلائق بنے اور اس مقصد کی خاطر اس نے انہدام کعبہ کے لیے لشکر کشی کی ادھر قریش یعنی سارا عرب اس کی مقاومت سے عاجز و درماندہ تھا ابرہہ وقت کے تمام جنگی اسلحہ اور سر و سامان کا مالک اور قریش ان سب سے یکسر محروم ‘تب غیرت حق حرکت میں آئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ دنیوی طاقت کے گھمنڈ پر مشیت الٰہی سے ٹکرانے والا خود ہی فنا کے گھاٹ اتر گیا اور محور توحید ” کعبہ “ خدائی حفاظت کے سایہ میں اسی طرح قائم رہا۔
{ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } [6]
” بلاشبہ اس بات میں بڑی ہی عبرت ہے اس شخص کے لیے جو خوف خدا رکھتا ہے “
قرآن عزیز نے سورة الفیل میں اسی حقیقت کو معجزانہ اسلوب بیان کے ساتھ نقل کیا ہے :
{ اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ ۔ اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ ۔ وَّ اَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا اَبَابِیْلَ۔ تَرْمِیْہِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ ۔ فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُولٍ ۔ } [7]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھے نہیں معلوم کہ تیرے پروردگار نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ کیا ان کے فریب کو ناکام نہیں بنادیا ؟ اور ان پر فوج در فوج پرند بھیج دیئے وہ پرند ان پر کنکریاں پھینکتے تھے پھر (خدا نے) ان (ہاتھیوں والوں) کو کھائے ہوئے بھس کے مانند کردیا۔ “
بہرحال عام الفیل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت کا سال ہے اور یہ واقعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور قدسی کا سب سے بڑا قریبی نشان ہے اور یہ حقیقت اس شخص پر بخوبی عیاں ہے۔
{ لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ} [8]
” جس کے پاس قبول حق کے لیے دل ہے یا وہ حاضر دماغی کے ساتھ امر حق کی جانب کان لگائے ہوئے ہے۔ “

تاریخ ولادت کی تحقیق

تمام ارباب تاریخ و سیر کا تین باتوں پر کلی اتفاق ہے ایک یہ کہ ولادت کا سال ” عام الفیل “ تھا۔چنانچہ سیرت و مغازی کے مشہور امام محمد بن اسحاق اور جلیل القدر محدث و مورخ حافظ ابن کثیر ; جمہور کی یہی رائے نقل کرتے ہیں :
( (وَکَانَ مَوْلَدُہٗ (علیہ السلام) ُ عَامَ الْفِیْلِ وَھَذَا ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عَنِ الْجُمْھُوْرِ وَ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ بْنُ مُنْذِرٍ اَلْخَزَامِیُّ وَ ھُوَ الَّذِیْ لَا یَشُکُّ فِیْہِ اَحَدُ عُلَمَائِنَا اَنَّہٗ وُلِدَ عَامَ الْفِیْلِ ) ) [9]
” جمہور کے نزدیک یہی قول مشہور ہے کہ نبی کی ولادت عام الفیل میں ہوئی اور ابراہیم بن منذر کہتے ہیں کہ اس بات میں کسی عالم کو بھی شک و شبہ نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
( (وَالْمُجْتَمَعُ عَلَیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ عَامُ الْفِیْلِ )) [10]
” اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام الفیل میں پیدا ہوئے۔ “
اور دوسری اور تیسری بات یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ربیع الاول کے مہینے میں شنبہ (پیر) کے دن صبح صادق کے وقت ہوئی :
( (وَھَذا مَا لَا خِلَافَ فِیْہِ اَنَّہٗ وُلِدَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ ثُمَّ الْجَمْھُوْرُ عَلَی اَنَّ ذَالِکَ کَانَ فِیْ شَھْرِ رَبِیْعِ الْاَوَّلَ )) [11]
” اور اس پر کلی اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو شنبہ (پیر) کے دن پیدا ہوئے پھر جمہور کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ “
( (قَالَ اَبُوْ قَتَادَۃَ (رض) اَنَّ اَعْرَابِیًّا قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَا تَقُوْلُ فِیْ صَوْمٍ یَوْمِ الْاَثْنَیْنِ فَقَالَ ‘ ذَالِکَ یَوْمُ وُلِدَتُ فِیْہِ وَ اُنْزِلَ عَلَّی فِیْہِ )) [12]
” ابو قتادہ (رض) فرماتے ہیں گاؤں کے ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ پیر کے دن کے متعلق کیا فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی اور جس میں مجھ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی۔ “
لیکن اہل سیر و تاریخ اس باب میں مختلف الرائے ہیں کہ ربیع الاول کی کون سی تاریخ تھی عوام میں تو مشہور قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول تھی اور بعض کمزور روایات اس کی پشت پر ہیں اور اکثر علماء 8 ربیع الاول کہتے ہیں لیکن صحیح اور مستند قول یہ ہے کہ 9 ربیع الاول تاریخ ولادت ہے اور مشاہیر علمائے تاریخ و حدیث اور جلیل المرتبہ ائمہ دین اسی تاریخ کو ” صحیح “ اور ” اثبت “ کہتے ہیں چنانچہ حمیدی ‘ عقیلی ‘ یونس بن یزید ‘ ابن عبداللہ ‘ ابن حزممحمد بن موسیٰ خوارزمی ‘ ابوالخطاب ابن دحیہ ‘ ابن تیمیہابن قیمابن کثیرحافظ ابن حجر عسقلانیشیخ بدر الدین عینی جیسے مقتدر علماء کی یہی رائے ہے۔
محمود پاشا فلکی نے (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت داں اور منجم گزرا ہے) ہیئت کے مطابق جو زائچہ اس غرض سے مرتب کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے اپنے زمانہ تک کسوف و خسوف (سورج گرہن و چاند گرہن) کا صحیح حساب معلوم کرے پوری تحقیق کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ سن ولادت با سعادت میں کسی حساب سے بھی دو شنبہ (پیر) کا دن 12 ربیع الاول کو نہیں آتا بلکہ 9 ربیع الاول ہی کو آتا ہے اس لیے بلحاظ قوت و صحت روایات اور باعتبار حساب ہیئت و نجوم ولادت مبارک کی مستند تاریخ 9 ربیع الاول ہے۔
8 اور 9 کا اختلاف حقیقی اختلاف نہیں ہے بلکہ مہینے کے 29 اور 30 کے حساب پر مبنی ہے اور جبکہ حساب سے ثابت ہوگیا کہ صحیح تاریخ 21 اپریل تھی تو 8 کے متعلق تمام اقوال دراصل 9 کی تائید میں پیش ہو سکتے ہیں۔ اصحاب فیل کے واقعہ سے کس قدر عرصہ بعد ولادت ہوئی ؟ متعدد اقوال میں سے مشہور قول یہ ہے کہ پچاس دن بعد ظہور قدسی ہوا ہے :
( (وَقِیْلَ بِخَمْسِیْنَ یَوْمًا وَھُوَ اَشْھَر)) [13]
” ایک قول یہ ہے کہ اصحاب فیل کے واقعہ سے پچاس دن بعد ولادت باسعادت ہوئی اور یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ “

نسب مبارک

نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی النسل ہیں اور عرب کے معزز قبیلہ قریش کی سب سے زیادہ مقتدر شاخ بنی ہاشم سے ہیں ‘ قرآن عزیز نے اہل عرب کو خطاب کرتے ہوئے متعدد مقامات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عربی نژاد ہونے کا ذکر کیا ہے :
{ ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ } [14]
” (خدا) وہ ذات ہے جس نے امیین (ان پڑھ لوگوں) میں سے ہی ایک رسول بھیج دیا جو ان پر اس کی آیات پڑھتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو الکتاب (قرآن) اور حکمت سکھاتا ہے۔ “
{ لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ } [15]
” بلاشبہ تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیا۔ “
{ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ } [16]
” جب کہ بھیج دیا اللہ نے ان میں ایک رسول جو بلحاظ نسب ان ہی میں سے ہے۔ “
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا } [17]
” اسی طرح ہم نے آپ پر قرآن کو بزبان عربی اتارا ہے تاکہ (اے محمد ) تم مکہ والوں اور ان کے گرد و پیش کے بسنے والوں کو (برائیوں سے) ڈراؤ۔ “
{ اَعْجَمِیٌّ وَّ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ} [18]
” کیا (اس قرآن کو) سکھا دیتا ہے کوئی عجمی اور حالت یہ ہے کہ یہ واضح عربی زبان میں ہے۔ “
ماہرین انساب عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسماعیل بن ابراہیم (علیہما السلام) کی نسل سے ہیں اس لیے کہ قریش بغیر کسی اختلاف رائے کے عدنانی ہیں اور عدنان کے اسماعیلی ہونے میں دو رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
عرب کے علم الانساب کے مشہور عالم محدث ابن عبد البر (رحمہ اللہ علیہ) تحریر فرماتے ہیں :
( (وَاَجْمَعُوْا اَنَّ مُحَمَّدًا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ وُلْدِ عَدْنَانَ وَاَنَّ عَدْنَانَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَاَنَّ رَبِیْعَۃَ وَ مُضَرَ مِنْ وُلْدِ اِسْمٰعِیْلَ )) [19]
” اور علمائے انساب کا اس پر اتفاق ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدنان کی نسل سے ہیں اور عدنان اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہے اور ربیعہ اور مضر بھی اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہیں۔ “
علمائے انساب نے نسب نامہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے :
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان
(عربی میں :محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانۃ بن خزيمۃ بن مدركۃ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان)
اور والدہ کی جانب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نسب نامہ کلاب پر جا کر پدری سلسلہ نسب کے ساتھ مل جاتا ہے یعنی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب۔ کلاب کو حکیم بھی کہتے ہیں۔
البتہ عدنان اور حضرت اسماعیل کے درمیان سلسلہ کے ناموں سے متعلق ماہرین انساب کی آرا مختلف ہیں۔ [20] اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرما کر ” کَذِبَ النَّسَّابُوْنَ “ (نسب بیان کرنے والوں نے غلط بیانی کی ہے) کسی رائے کی توثیق نہیں فرمائی اور اپنے سلسلہ نسب کے متعلق صرف اس قدر ارشاد فرمایا ہے :
( (اَنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی کَنَانَۃَ مِنْ وُّلْدِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اَصْطَفٰی قُرَیْشًا مِّنْ کَنَانَۃَ وَاصْطَفٰی مِنْ قُرَیْشٍ بَنِی ہَاشِمٍ وَاصْطَفَانِیْ مِنْ بَنِیْ ھَاشِمٍ )) [21]
” اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں سے کنانہ کو ممتاز بنایا اور کنانہ میں سے قریش کو عزت و عظمت بخشی اور قریش میں سے بنی ہاشم کو امتیاز عطا فرمایا اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا۔ “
گویا اس طرح سلسلہ نسب کے صرف ان حصوں کی تصدیق فرمائی جو ماہرین انساب کے درمیان بلا خلاف مسلم تھے۔
اسلام نے نسبی تفاخر اور اس پر مبنی سماجی رسم و رواج کو بہت بڑا گناہ اور جرم قرار دیا ہے وہ کہتا ہے خدا کے یہاں فضیلت کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اور وہاں حسب و نسب کی کوئی پرسش نہیں ہے نیز نسبی تفاخر اسلام کے بنیادی قانون ” اخوت اسلامی “ کے قطعاً منافی ہے اس لیے اسلام کے اجتماعی دستور میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے تاہم واقعاتی طور پر تاریخ یہ پتہ دیتی ہے کہ ہمیشہ انبیاء و رسل علیہم السلام اپنی قوم اور اپنے ملک کے معزز خاندان میں سے ہوتے رہے ہیں حکمت خداوندی کا یہ فیصلہ غالباً اس لیے ہوا کہ قوموں اور ملکوں کے رسم و رواج اور نسبی تفاخر کے خلاف ان کی دعوت حق اور ان کا پیغام صداقت کہیں ذاتی مفاد کے لیے نہ سمجھ لیا جائے اور اس طرح اس کا اخلاقی پہلو کمزور نہ ہوجائے مثلاً کسی سماجی زندگی میں ذات پات کی تقسیم اور کا سٹ سسٹم اس طرح موجود ہے کہ اس کی وجہ سے بعض انسان بعض کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے ہیں تو اگر اس قوم یا ملک میں کوئی پیغمبر اس خاندان سے تعلق رکھتا ہو جس کو قومی اور ملکی رواج نے نیچ اور پست اقوام کا لقب دے رکھا ہے ایسی حالت میں اس ظلم صریح اور باطل کوشی کے خلاف اس پیغمبر کی صدائے حق اتنی سرعت کے ساتھ کامیاب نہ ہوتی جس قدر اس حالت میں ہوسکتی ہے جب کہ وہ خود اس قوم و ملک کے اونچے خاندان سے تعلق رکھتا ہو اور صرف ایک اسی خاص مسئلہ میں نہیں بلکہ اس کے پیغام حق کی تمام اصلاحات میں یہ فرق ضرور نظر آئے گا۔
بہرحال یہ حکمت ہر مقام اور ہر موقع پر مفید ہو یا نہ ہو عرب کے حالات و واقعات کے لیے از بس مناسب اور مفید ثابت ہوئی چنانچہ صدائے اسلام نے جب اپنی انقلابی اور اصلاحی گرج سے روحانیت کی خفتہ کائنات میں تہلکہ ڈال دیا تو ایک جانب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل عرب کو یہ سنایا کہ جہاں تک خاندانی امتیاز کا تعلق ہے تو میں قریشی بھی ہوں اور ہاشمی بھی اور یہ امتیاز تمہارے نقطہ نظر سے بہت بلند ہے مگر میری نگاہ میں اس کی حیثیت صرف یہ ہے : ” وَلَا فَخَرَ “ ” یہ کوئی فخر کرنے کی چیز نہیں ہے۔ “ اور دوسری جانب نسبی تفاخر کی بنیادوں کے انہدام اور مساوات انسانی کی دعوت عام کے لیے اس خدائی فرمان کا اعلان کرکے کائنات انسانی کی تمام تاریک ذہنیت کے خلاف انقلاب عظیم برپا کردیا :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [22]
” لوگو ! میں نے تم سب کو ایک مرد و عورت سے پیدا کیا ہے (یعنی انسان کی ابتدا آدم اور اس کی بیوی حوا (علیہما السلام) سے ہوئی ہے) اور تم کو خاندانوں اور قبیلوں میں صرف اس لیے بانٹ دیا ہے کہ آپس میں (صلہ رحمی کے لئے) پہچان اور معرفت کا طریقہ قائم کرلو (اور اصل یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ کے نزدیک وہی عزت والا ہے جو تم میں سے پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے والا ہے۔ “
اور حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ ہزارہا صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کی موجودگی میں وداعی پیغام سنا رہے اور اسلام کے بنیادی اصول کے استحکام کے لیے اہم وصایا پیش فرما رہے تھے اس حکم خداوندی کی تائید میں یہ انقلاب آفریں پیغام بھی ارشاد فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ :
{ یٰٓـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ} [23]
فَلَیْسَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ فَضْلٌ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَبْیَضَ فَضْلٌ وَلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ فَضْلٌ اِلَّا بِالتَّقْوٰی۔ یَا مَعْشَرَ الْقُرَیْشِ لَا تَجِیْئُوْا بِالدُّنْیَا تَحْمِلُوْنَھَا عَلٰی رِقَابِکُمْ وَیَحِییُٔ النَّاسُ بِالْآخَرِۃ فَاِنِّیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا۔۔ الخ)) [24]
” اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہارے درمیان خاندان اور قبائل بنا دیئے ہیں تاکہ (صلہ رحمی کے لئے) تعارف پیدا کرو بلاشبہ تم میں اللہ کے نزدیک وہی برگزیدہ ہے جو زیادہ متقی (نیک کردار) ہے پس (خوب یاد رکھو کہ) نہ عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے اور نہ گورے کو کالے پر کوئی بزرگی بلکہ ان سب کے لیے فضیلت کا معیار صرف تقویٰ (نیک عملی) ہے اے گروہ قریش ایسا نہ ہو کہ تم (خاندانی فخر کے زعم باطل کی وجہ سے قیامت میں) دنیا کو کاندھے پر لاد کر لاؤ اور دوسرے لوگ (نیک عملی کی بدولت) آخرت کا سامان لے کر آئیں ‘ واضح رہے کہ (تمہارے محض قریشی ہونے کی وجہ سے) میں تم کو خدا کے فیصلے سے قطعاً بےپرواہ نہیں بنا سکتا (خدا کے یہاں تو صرف عمل ہی کام آئے گا) “
اور ایک مرتبہ نسبی فخر کے خلاف تبلیغ حق کرتے ہوئے اس کو جاہلی تعصب فرمایا اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کے لیے سخت تاکید فرمائی۔ ارشاد فرمایا :
( (اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدْ اَذْھَبَ عَنْکُمْ عَصَبِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَ فَخْرَھَا بِالْاٰبَائِ وَاِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیُّ اَوْ فَاجِرٌ شَقَی النَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ )) [25]
” اللہ تعالیٰ نے (دعوت اسلام کے ذریعہ) تمہارے درمیان سے جاہلیت کے تعصب اور نسبی فخر کو مٹا دیا ہے اور اب انسان یا نیکوکار مومن ہے اور یا بدکار (پاپی) ۔ سب انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کی پیدائش مٹی سے ہوئی ہے (پھر فخر کرنے کا کیا موقع ہے ؟ )“
اسی مقدس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام کے دور اولین میں نہ ذات پات کا کوئی سوال باقی رہ گیا تھا اور نہ خاندانی تفاخر کی کوئی حیثیت سمجھی جاتی تھی اور اس صدائے حق نے غلاموں تک کو سروری بخش دی تھی ‘ چنانچہ اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کی سالاری لشکر اور امامت جہاد ‘ بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) کے لیے صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کا یہ ارشاد ” سید ھذہ الامۃ “ ” اس امت کا سردار “ قریش اور ہاشمی صحابہ (رضوان اللہ علیہم) کے درمیان ایک عجمی انسان ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی جلالت و عظمت ‘ صہیب رومی اور سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) کی رفعت و بلندی مرتبت اور اسی قسم کے ہزاروں واقعات تھے جو چشم فلک نے آنکھوں سے دیکھے اور تاریخ نے آغوش صفحات میں محفوظ رکھے ہیں مگر وائے بدبختی کہ بیرونی اثرات اور عرب سے باہر عجمی ماحول نے ایک عرصہ کے بعد مسلمانوں کو پھر اسی لعنت سے دو چار کردیا جس کا مرثیہ علامہ اقبال مرحوم (رحمہ اللہ علیہ) کو اس طرح کرنا پڑا :

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرما کر ” اِنَّمَا ھُوَ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ اَوْ فَاجِرٌ شَقِیٌّ“ اس مسئلہ کو اس درجہ صاف کر دیا تھا کہ مسلمان کی زندگی میں کبھی اس کے برعکس زندگی کا کوئی اثر پڑنا ہی نہیں چاہیے تھا ‘ ذات پات تو صرف اس لیے تھیں کہ چھوٹے چھوٹے حلقوں میں باہمی تعارف ‘ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ایک دوسرے کے ساتھ بآسانی ہو سکے ورنہ کیسی ذات ؟ کہاں کا خاندان ؟ کون برادری ؟ یہاں تو صرف دو ہی فطری اور نیچرل تقسیمیں ہیں یا نیکوکار یا بدکار کسی قوم کسی خاندان اور کسی ملک کا انسان ہو اگر سچی خدا پرستی اور نیکوکاری رکھتا ہے تو وہ سب ایک برادری اور ایک قوم ہیں اور اگر مشرک و کافر اور بدکار پاپی تو یہ سب ایک گروہ اور ایک ٹولی ہیں۔

ولادت با سعادت اور یتیمی

خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد ماجد کا نام عبداللہ اور والدہ ماجدہ کا آمنہ تھا۔ابھی آفتاب ہدایت نے کائنات ہست و بود میں طلوع نہیں کیا تھا اور حضرت آمنہ کی مشکوئے معلی اس ودیعت کی امین ہی تھی کہ والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور ارباب سیرت کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ایک قافلہ کے ساتھ شام تشریف لے گئے تھے ‘ واپسی میں جب قافلہ مدینہ (یثرب) پہنچا تو وہ بیمار ہوگئے اور اس لیے اپنے ننہال بنی نجار میں قیام پذیر رہے قافلہ جب مکہ پہنچا تو عبد المطلب نے بیٹے کے متعلق دریافت کیا قافلہ نے ان کی بیماری اور مدینہ میں قیام کا واقعہ کہہ سنایا۔ تب عبدالمطلب نے اپنے بڑے لڑکے حارث کو دریافت حال کے لیے مدینہ بھیجا حارث جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ نے ایک ماہ چند روز بیمار رہ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ واپس آ کر جب حارث نے باپ کو حادثہ کی اطلاع دی تو عبد المطلب اور تمام خاندان کو اس صدمہ جانکاہ نے بےحال کردیا کیونکہ عبداللہ اپنے باپ اور بھائیوں کے بہت چہیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 9 ربیع الاوّل، اکیاون (53) قبل ہجرت (واقعہ فیل کے پچاس دن بعد) بمطابق بیس بحساب دیگر بائیس اپریل، پانچ سو اکہتر عیسوی، اٹھارویں سن چالیس نوشیروانی، یکم جیٹھ چھ سو اٹھائیس بکرمی شمسی، بیس ماہِ ہفتم سن دو ہزار پانچ سو پچاسی ابراہیمی، گیارہ ماہِ ہشتم سن تین ہزار چھ سو پچھتر طوفانی، بروز پیر صبح صادق کے وقت۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتب میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ہزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ' میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان میں تھے۔۔۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے'۔[26][27]
جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔[28]
پیدائش سے چند ماہ قبل والد ماجد جناب حضرت عبد اللہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ گویا حضرت محمدﷺ دنیا میں دُرِّیتیم بن کر آئے۔ محمدﷺ نام رکھا گیا اور ساتویں دن عقیقہ ہوا۔
غرض جب ولادت باسعادت ہوئی تو اس سے قبل ہی آپ کو یہ یتیمی کا شرف حاصل ہوچکا تھا۔ چنانچہ قرآن نے آپ کی یتیمی و دنیوی وسائل سے محرومی کے باوجود آغوش رحمت کردگار میں نشوونما پا کر ” ہادی عالم “ بننے کا معجزانہ اختصار کے ساتھ سورة والضحیٰ میں تذکرہ کیا ہے۔
{ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی ۔ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۔ وَوَجَدَکَ عَائِلًا فَاَغْنٰی۔ } [29]
” (اے پیغمبر ! ) کیا تجھ کو خدا نے یتیم نہیں پایا پھر اپنی آغوش (رحمت) میں جگہ دی اور کیا تجھ کو ناواقف نہیں پایا پھر تجھ کو (کائنات کی ہدایت کے لئے) ہدایت مآب بنایا اور کیا تجھ کو (ہر قسم کے وسائل سے محروم) و محتاج نہیں پایا پھر تجھ کو (ہر قسم کی سروری دے کر) غنی بنادیا۔ “
بقول حضرت ابوقتادہ (رحمہ اللہ علیہ) ان آیات میں عجیب و غریب اعجاز اور اسلوب بیان کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کے تمام ارتقائی مدارج کا تذکرہ ہے تم سمجھتے ہو کہ ” فَاٰوٰی “ کے معنی یہ ہیں کہ پروردگار عالم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رہنے سہنے کی صورت پیدا کردی یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے یارو مددگار نہیں رہنے دیا یہ بھی صحیح ہے مگر اس کلام ربانی کی اصل روح یہ ہے کہ اس نے ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کے مادی اسباب و وسائل سے بےپرواہ رکھ کر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نشو وارتقاء کو خالص اپنی تربیت میں کامل و مکمل کیا۔ [30]
{ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی } [31]
کی تفسیر کو خود قرآن ہی نے دوسری جگہ روشن کردیا مثلاً سورة شورٰی میں ہے :
{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَائُ مِنْ عِبَادِنَا } [32]
” اور اسی طرح ہم نے تیری جانب اپنے امر کی روح کا القاء کیا (حالانکہ اس سے پہلے) نہ تو کتاب (قرآن) سے واقف تھا اور نہ ایمان کی حقیقت سے لیکن ہم نے اس کو نور (روشنی) بنادیا اور ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں (اس کی صلاحیت و استعداد کے پیش نظر) اس کے ذریعہ ہدایت دیتے ہیں۔ “
اور آیت عَآئِـلًا فَاَغْنٰی میں دنیوی احتیاج و غنا کا ذکر روح کلام نہیں ہے بلکہ اس جانب اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قربت و کمال کا وہ مرتبہ عظمیٰ عطا فرمایا ہے کہ مادی اور روحانی ہر قسم کی احتیاج سے بالاتر بنا کر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مثل اعلیٰ ” غنا “ سے بہرہ ور بنادیا ‘ یہی وہ غنا ہے جس کا خود ذات اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ذکر فرمایا ہے :
( (لَیْسَ الْغِنٰی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ وَلٰکِنَّ الْغِنٰی عَنِ النَّفْسِ )) [33]
” غنی مالداری کی بہتات کا نام نہیں ہے حقیقی غنی نفس کا ماسویٰ اللہ سے مستغنی ہوجانا ہے۔ “

ایامِ رضاعت و طفولت

رسول اللّٰہ کی ولادت باسعادت کے بعد سب سے پہلے آپؐ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنے لختِ جگر کو چند روز تک خود دودھ پلایا ، اس کے بعد کچھ مدت کیلئے ابولہب کی کنیز ثویبہ نے یہ خدمت انجام دی، اور اس کے بعد یہ شرف قبیلہ بنو سعد سے تعلق رکھنے والی بی بی حلیمہ سعدیہ کے حصے میں آیا۔ [34] [35]

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی گود میں

در اصل مکہ مکرمہ کے شرفاء میں یہ رواج تھا کہ وہ اپنے شیر خوار بچوں کو کچھ عرصہ کیلئے ’’بادیہ‘‘ (گاؤں)میں رکھنا پسند کرتے تھے، تاکہ شہر کے آلودہ ماحول سے دور صاف ستھری اور خالص آب وہوا میں بچے کی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں اور اس کی نشوونما بھی اچھی ہو۔نیز یہ کہ شہر میں چونکہ بیرونی لوگوں کی بکثرت آمدورفت رہا کرتی ہے ،لہٰذا ان کے ساتھ مسلسل اختلاط اور میل جول کی وجہ سے زبان بھی خالص نہیں رہتی اور لب ولہجہ بھی متأثر ہوتا ہے، جبکہ گاؤں والوں کی زبان خالص ہوا کرتی ہے اور اس میں دوسری کسی زبان کی ملاوٹ کا احتمال نہیں ہوتا۔
چنانچہ جن دنوں رسول اللہﷺکی ولادت ہوئی آپؐ کی والدہ ماجدہ نے بھی حسبِ دستور اپنے لختِ جگر کو گاؤں بھیجنے کا ارادہ کیا،اتفاق سے انہی دنوں بادیۂ بنی سعد سے تعلق رکھنے والی کچھ عورتیں بچے گود لینے کی غرض سے شہر مکہ کی جانب روانہ ہوئیں، جن میں حلیمہ سعدیہ بھی تھیں، مکہ پہنچنے کے بعد شہر میں گھوم پھر کر سب ہی عورتوں نے کوئی نہ کوئی شیر خوار بچہ گود لے لیا، جبکہ حلیمہ کو کوئی بچہ نہ مل سکا، البتہ ایک یتیم بچہ تھا جسے کسی عورت نے محض اس وجہ سے اپنانا قبول نہیں کیا تھا کہ اس یتیم بچے کو گود لے کر شاید کوئی معقول معاوضہ اور مالی فائدہ نہ مل سکے… اور پھر یتیم بھی ایسا کہ جس نے باپ کا نام تو سنا ہو… مگر آنکھیں باپ کی صورت دیکھنے کو ترستی ہوں… جس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو چکا…!
حلیمہ کو چونکہ کوئی بچہ نہیں مل سکا تھا اس لئے سوچا کہ خالی ہاتھ واپس جانے سے بہتر ہے کہ اس یتیم کو ہی قبول کر لیا جائے، چنانچہ بادلِ ناخواستہ اسے گود لے لیا…جس یتیم بچے کو گود لینے پر حلیمہ رنجیدہ و دلبرداشتہ تھیں اور اس چیز کو اپنی ناکامی تصور کررہی تھیں… انہیں کیا خبر تھی کہ بظاہر تو یہ ناکامی تھی… لیکن ایسی ناکامی پر ہزاروں کامیابیاں قربان ہو جائیں… ! حلیمہ خود بھی لاغر وفاقہ زدہ تھیں … لہٰذ ابقول ان کے خود ان کے اپنے شیر خوار بیٹے کو کبھی پیٹ بھرکر دودھ پینا نصیب نہیں ہوا تھا،لیکن اُس وقت جب انہوں نے بنوہاشم کے اس ’’دُرِّیتیم‘‘کو گود لیا اور پہلی بار اسے اپنا دودھ پلایا تو اس نے خوب سیر ہوکر دودھ پیا اور اس کے بعد دیر تک سوتا رہا، اور تب حلیمہ نے اپنے حقیقی بیٹے کوبھی دودھ پلایا تو پہلی بار اس نے بھی خوب پیٹ بھرکر دودھ پیا اور اس کے بعدوہ بھی دیرتک سوتا رہا… یہ بات حلیمہ اور ان کے شوہر(حارث بن عبدالعزیٰ)کیلئے انتہائی حیرت انگیز تھی۔ان کی ایک بکری اور ایک اونٹنی بھی اس سفر میں ہمراہ تھی، وہ دونوں بھی فاقہ زدہ تھیں اور ان کا دودھ نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن اس روز ان دونوں نے بھی خوب زیادہ دودھ دیا، حلیمہ اور ان کے شوہر نے اس روز خوب جی بھرکر دودھ پیا۔ گاؤں سے مکہ شہر کی طرف آتے وقت کیفیت یہ تھی کہ حلیمہ کی گدھی کمزوری کی وجہ سے سب سے پیچھے پیچھے چل رہی تھی اور حلیمہ کی سہیلیاں بار بار راستے میں رک کر اس کا انتظار کرتی تھیں… لیکن اب مکہ سے گاؤں کی طرف واپسی کا وقت آیا تو کیفیت یہ ہوئی کہ حلیمہ کی وہی گدھی اس قدر چست اور تیزرفتار ہوگئی کہ سب سے آگے آگے دوڑنے لگی ،جس پر حلیمہ کی سہیلیاں بار بار انہیں پیچھے سے پکارتیں کہ حلیمہ رک جاؤ… کچھ ہمارا بھی توخیال کرلو… اور باربار پوچھتیں کہ حلیمہ کیا یہ تمہاری وہی گدھی ہے…؟ حلیمہ جواب دیتیں کہ ہاں یہ وہی توہے… اس پروہ کہتیں کہ وَاللّہ اِنّ لَھا لَشَأناً … یعنی’’بخدا آج تواس کی شان ہی نرالی ہے…!‘‘ اسی طرح گاؤں پہنچنے کے بعدان کی کھیتی باڑی اور غلہ و خوراک وغیرہ … غرضیکہ ہر چیز میں نہایت تیزی کے ساتھ حیرت انگیز طور پر بہترین اور برکت کے آثار نمایاں ہوتے چلے گئے، خود حلیمہ کی صحت بھی بہت اچھی ہوگئی …جس پروہ دونوں میاں بیوی انتہائی حیران بھی تھے اور بہت زیادہ خوش بھی،حتیٰ کہ ایک روز حلیمہ کے شوہر نے انہیں کہا:(تَعْلَمِي وَاللّہِ یَا حَلِیمَۃ ! لَقَد أخَذتِ نَسَمَۃً مُبَارَکَۃ…) یعنی:’’حلیمہ! یقین کرو، بخدا مجھے تویوں لگتا ہے کہ تم یہ جو بچہ لائی ہویہ انتہائی مبارک ہے…‘‘! اس پر حلیمہ نے برجستہ جواب دیا: (وَاللّہِ اِنِّي لَأرجُو ذَلِکَ) یعنی:’’بخدا مجھے بھی ایساہی محسوس ہوتا ہے…‘‘۔ اور یوں حلیمہ سعدیہ اور ان کے افرادِ خانہ کو اس ’’دُرِیتیم‘‘ کی قدروقیمت کا مکمل ادراک و احساس ہوا اور وہ اس کی بدولت فیوض وبرکات کااپنی کھلی آنکھوں سے مسلسل مشاہدہ بھی کرتے رہے اور خوب مستفید و مستفیض بھی ہوتے رہے…! دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے… حلیمہ کا دل بالکل نہیں چاہتا تھاکہ یہ بچہ ان کی آغوش سے واپس چلا جائے،لیکن مدتِ رضاعت پوری ہوچکی تھی،لہٰذا بادلِ ناخواستہ وہ اسے اس کی والدہ کے پاس مکہ شہر لے گئیں، بچے کی والدہ نے اپنے لختِ جگرکی اتنی اچھی صحت دیکھی تو انتہائی خوش ہوئیں، ماں کی یہ خوشی دیکھ کر حلیمہ نے موقع مناسب سمجھا اور ڈرتے ڈرتے کہاکہ ’’آپ دیکھ رہی ہیں کہ گاؤں کی صاف ستھری فضاء میں بچے کی صحت کتنی عمدہ ہے،لیکن اب مجھے یہ فکر ستا رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب یہاں شہر میں اس کی صحت خراب ہو جائے…اس لئے میں چاہتی ہوں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں بچے کو مزید کچھ عرصہ کیلئے واپس اپنے ہمراہ لے جاؤں…بی بی آمنہ دیکھ ہی چکی تھیں کہ بادیۂ بنی سعد میں رہتے ہوئے بچے کی صحت خوب عمدہ ہے اور وہاں کی آب وہوا اس کو خوب موافق آئی ہے، نیز انہوں نے اپنے لختِ جگر کیلئے حلیمہ کا جب یہ جذبہ اور پیار بھی دیکھا تو وہ مسکرائیں اور مزید کچھ عرصہ کیلئے بچے کولے جانے کی اجازت دے دی۔ [36] حضرت حلیمہ کا یہ تمام واقعہ سیرۃ ابن ہشام میں مذکور ہے صرف خط کشیدہ الفاظ ایک دوسری روایت کے الفاظ کا ترجمہ ہے جسکو علامہ سیوطی نے [37] خصائص الکبریٰ میں تذکرہ کیا ہے۔[38]

حادثۂ شقِ صدر

حلیمہ سعدیہ اس بچے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی واپسی پر بہت خوش تھیں ،اور یو ں بادیۂ بنی سعد میں مزید تین سال(یعنی کل پانچ سال) گذر گئے ،لیکن ایک روز نہایت عجیب واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے حلیمہ انتہائی خوفزدہ اور پریشان ہو گئیں۔ہوا یہ کہ یہ بچہ ایک روز جب گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچوں کے ہمراہ کھیل کود میں مشغول تھاکہ اچانک وہاں کوئی اجنبی نمودار ہوا،اور اس نے بچے کو زمین پر لٹا کر اس کا سینہ چاک کردیا…دوسرے بچوں نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراً دوڑتے ہوئے حلیمہ کے گھر پہنچے اور بتایا کہ کسی نے محمد() کو قتل کر دیا ہے۔حلیمہ انتہائی پریشانی کے عالم میں وہاں پہنچیں تو دیکھا کہ گھبراہٹ کی وجہ سے آپؐ کے چہرے کا رنگ قدرے بدلا ہوا ہے۔ درحقیقت وہ اجنبی شخص جبریل امین علیہ السلام تھے جواللہ کے حکم سے وہاں آئے تھے، انہوں نے رسول اللہ کا سینہ چاک کرکے قلبِ مبارک باہر نکالا ،اور اس میں سی سیاہ نقطے کی مانند جمے ہوئے خون کاایک چھوٹا سا ٹکڑا کال کریہ کہتے ہوئے پھینک دیاکہ ’’یہ شیطان کاحصہ ہے‘‘(یعنی اس حصے کو دل سے نکال کر پھینک دیا تاکہ شیطان کبھی آپؐپر غالب نہ آسکے) پھر آپؐ کے دل کو سونے کی طشتری میں رکھ کرآبِ زمزم سے دھویا،اس میں ایمان وحکمت کا جوہر بھرا، اور پھر اسے اسی طرح جوڑ کر سینے میں اس کے مقام پر رکھ دیا۔

(۱)دراصل یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک قسم کا روحانی آپریشن اور سامانِ عصمت تھا۔ اس حادثہ کی وجہ سے حلیمہ سعدیہ بہت زیادہ گھبرا گئیں ،اور آپؐ کی سلامتی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند روز بعد آپؐ کو مکہ شہر میں آپؐ کی والدہ ماجدہ کے پاس چھوڑ آئیں۔ [39] [40]

والدہ کی کفالت میں

بادیۂ بنی سعد میں تقریباً پانچ سال گذارنے کے بعد آپ ﷺ اپنی والدہ کے سایۂ شفقت میں واپس پہنچ گئے ۔جب چھ سال کے ہوئے تو والدہ نے اپنے شوہرِ نامدار یعنی عبداللہ بن عبدالمطلب سے خلوص و وفاء کے اظہار کے طور پر مدینہ کا سفر کیا، اس سفر میں کمسن بیٹے (یعنی آپﷺ) کو بھی یہ سوچ کر ہمراہ لیا کہ بیٹے کو باپ کی شکل دیکھنا تو نصیب نہ ہو سکا… کم ازکم اب اسے باپ کی قبر کی زیارت ہی نصیب ہو جائے۔اس سفر میں کنیز ام ایمن بھی ہمراہ تھیں ، یہ کمسن بچہ اس طویل اور کٹھن سفر میں مناظرِ فطرت کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کرتا رہا، اس مختصر قافلے نے مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔
حاشیہ آپ ﷺ جب بعد میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور وہاں مستقل قیام کیا تب ایک روز آپؐ جب بنو جار کے ایک محلے سے گذر رہے تھے آپؐ کی نگاہ اس مکان پر پڑی جہاں آپؐ نے بچپن میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ سفرِ مدینہ کے موقع پر قیام کیا تھا، اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود آپؐ نے اس مکان کو پہچان لیا، اور پھر سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کی غرض سے مدینہ سے مکہ کی جانب سفرکے دوران راستے میں ابواء نامی مقام پر آپ اپنی والدہ کی قبر پر بھی گئے ،اور وہاں خوب روئے، جیساکہ حدیث کے الفاظ ہیں زارَ النّبِيّﷺ قبرَ أمِّہٖ فَبَکَیٰ وَ أبکَیٰ مَن حَولَہٗ …’’یعنی آپؐ نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی اور تب آپؐ خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلایا…‘‘ [41]

والدہ کی وفات

آپ ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ مدینہ میں تقریباً ایک ماہ قیام کے بعد جب مکہ کی طرف واپس روانہ ہوئیں تو راستے میں انتہائی تند و تیز اور گرم صحرائی ہواؤں نے آلیا، جس کی وجہ سے شدید بیمار پڑ گئیں ، راستے میں علاج کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی راحت و آرام کا کوئی بندو بست چند روز کی اس علالت کے بعد آخر مدینہ اور مکہ درمیان ’’اَبواء‘‘ نامی مقام پر اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں …! اور انہیں اسی مقام پرہی دفن کر دیاگیا۔ کمسن بچے نے اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو یوں پر دیس میں نزع اور موت کی کشمکش سے گذرتے دیکھا… جس سے اس کا گدازِ قلب مزید بڑھ گیا۔ [42] [43]

دادا کی کفالت میں

اُمِ ایمن جو اس سفر میں ہمراہ تھیں ٗپردیس میں بی بی آمنہ کی علالت اور پھر وفات کے بعد اس کمسن بچے کو ہمراہ لئے ہوئے واپس مکہ پہنچیں اور وہاں اسے اس کے دادا عبد المطلب کے حوالے کر دیا یہ بچہ اس سفر کے لیے ماں کی انگلی تھامے ہوئے جب گھر سے روانہ ہوا تھا تب سرپر آپ کا سایہ نہ تھا اور اب اس طویل اور تھکا دینے والے سفر کے بعد جب واپس مکہ میں اپنے گھر پہنچا تو کیفیت یہ تھی کہ ماں کی ممتا سے بھی محروم ہو چکا تھا…! یوں ہمارے پیارے رسول ﷺ اپنی پیاری ماں کی وفات کے بعد اب اپنے دادا محترم یعنی جناب عبدالمطلب کی کفالت میں آگئے،اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک چھ سال تین ماہ اور دس دن تھی۔ دادا نے جب اپنے اس یتیم پوتے کواپنے دامنِ کفالت و تربیت میں لیا تو جی بھرکر اسے پیار دیا،اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا،اور اپنے بچوں سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ ہمیشہ لاڈ اور پیار کیا، وہ آپ ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے دن بھر آپ ﷺ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے، اور رات کو جب آپ ﷺ سو جاتے تو وہ باربار اٹھ کر آپ ﷺ کی خبرگیری کیا کرتے۔ عبدالمطلب چونکہ اپنے قبیلہ کے سردار ہونے کے علاوہ متولیٔ کعبہ بھی تھے اس لئے کعبۃ اللہ کے قریب ان کیلئے خاص مسند بچھائی جاتی تھی جس پر کبھی کسی کو بیٹھنے کی جرأت نہ ہوتی، یہاں تک کہ ان کے اپنے بیٹے بھی جب وہاں آتے تو اس مسند کے آس پاس بیٹھ جاتے مگر آپ ﷺ کو عبدالمطلب ہمیشہ اس مسندِ خاص پر اپنے ساتھ ہی بٹھاتے، اگر کبھی کوئی آپ ﷺ کو وہاں سے اٹھانے کی کوشش کرتا تو عبدالمطلب یوں کہتے: دَعُوا اِبنِي ! فَوَاللّہِ اِنَّ لَہٗ لَشَأناً… یعنی : ’’میرے بیٹے کو یہیں بیٹھا رہنے دو،کیونکہ اللہ کی قسم اس کی تو شان بڑی ہی نرالی ہے…‘‘،اور ساتھ ہی فرطِ محبت سے آپ ﷺ کی پشت پر ہاتھ پھیرتے اور آپ ﷺ کے اس اندازِ شاہانہ اور استغناء کو دیکھ کر خوش ہوا کرتے۔ [44] لیکن آپؐ دادا کی اس شفقت سے بھی جلد ہی محروم ہو گئے جب بیاسی سال کی عمر پا کر یہ شفیق و مہربان دادا بھی راہیٔ ملکِ عدم ہو گئے، اور مکہ مکرمہ میں محلہ حجون میں دفن ہوئے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو آپ ﷺ بھی ساتھ تھے، شدتِ غم اور فرطِ محبت سے اُس وقت آپؐ جنازے کے ہمراہ روتے جارہے تھے…! اُس وقت آپؐ کی عمر مبارک صرف 8 سال 2 ماہ اور 10 دن تھی۔ [45]

ابوطالب کی کفالت میں


170PX

بسلسلہ مضامین:
اسلام

رسول اللہ ﷺ کے دادامحترم عبدالمطلب نے وفات سے قبل وصیت کی تھی کہ ان کے بعدآپؐ کی کفالت وتربیت آپؐ کے چچاابوطالب کے ذمہ ہوگی،چنانچہ ابوطالب نے اس عظیم ذمہ داری کوبہت ہی احسن طریقے سے تادمِ آخرنبھایا،آپؐ سے وہ اس قدرمحبت رکھتے تھے کہ آپؐکوہمیشہ اپنی اولادسے بڑھکرچاہااوراپنے بچوں پرمقدم رکھا،جب سوتے توآپؐکوساتھ لے کرسوتے،اورجب باہرجاتے توآپؐ کوساتھ لے کرجاتے۔ یوں زندگی کے دن گذرتے رہے… وقت کاپہیہ چلتارہا… اورآپؐ ابوطالب کی زیرِسرپرستی بچپن اورکم سنی کی حدودسے گذرنے کے بعداب لڑکپن کی عمرمیں داخل ہوگئے اوراب کچھ ہوش سنبھالاتومحسوس کیاکہ چونکہ آپؐ کے مشفق ومحسن چچا قلیل المال اور کثیرالعیال ہیں ٗ لہٰذاتلاشِ معاش کے سلسلہ میں ان کاہاتھ بٹاناچاہئے۔چنانچہ اس جذبے کے تحت آپؐ نے اس دورمیں بکریاں بھی چرائیں اورمحنت ومشقت بھی کی۔۔رسول اللہﷺ نے بچپن اورپھرلڑکپن کی منزلیں طے کرنے کے بعدنوجوانی کے مرحلے میں جب قدم رکھاتوآپ ؐنے بھی تجارت کوہی اپناذریعۂ معاش بنایا،اوراس دورمیں اپنے سرپرست اورمشفق چچاابوطالب کے ہمراہ آپؐنے متعددتجارتی سفربھی کئے۔ان دنوں تجارت کے حوالے سے چہارسوآپؐ کے حسنِ معاملہ ٗ راست بازی اورامانت ودیانت کے چرچے ہونے لگے،اپنے اورپرائے ٗ دوست ودشمن سبھی آپؐ کو’’صادق وامین ‘‘کے لقب سے پکارنے لگے…!!حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔۔۔[46] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گزرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔[47][48]

شام کا دوسرا سفر اور شادی

تقریباً25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔خدیجہ بنت خویلدانتہائی شریف النفس اورصاحبِ حیثیت خاتون تھیں،مکہ میں ان کاخاص مقام ورتبہ تھااورقریش کے عوام وخواص سبھی انہیں نہایت عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کاسلسلۂ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہﷺکے خاندان سے جاملتاہے،وہ بیوہ تھیں،اپنی شرافتِ نفس ٗپاکیزگیٔ اخلاق اورعفت وعصمت کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ انہیں ’’طاہرہ‘‘کے لقب سے پکاراکرتے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کاکاروبار اس قدروسیع پیمانے پرتھاکہ اہلِ مکہ کاجب کوئی تجارتی قافلہ روانہ ہوتاتواس میں اکثریت حضرت خدیجہؓ کے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی ہوتی،اپنے کاروباری امورکی انجام دہی ونگرانی کی غرض سے حضرت خدیجہ مختلف اشخاص کی خدمات حاصل کیاکرتی تھیں۔ انہی دنوںحضرت خدیجہؓ کوجب رسول اللہﷺ کی راست بازی اورامانت ودیانت کی خبریں ملیں توانہوں نے آپؐ کویہ پیغام بھجوایاکہ آئندہ جوتجارتی قافلہ مکہ سے ملکِ شام کیلئے روانہ ہوگااس کی نگرانی آپؐکریں،ساتھ ہی معقول معاوضے کابھی وعدہ کیا۔ آپﷺ نے اپنے سرپرست ومشفق چچاابوطالب سے مشورے کے بعداس پیشکش کو قبول فرمایااورسفرِشام کیلئے تیارہوگئے۔ چنانچہ آپﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکامالِ تجارت لے کرملکِ شام کی طرف روانہ ہوئے،توفیقِ الٰہی سے اس سفرمیں بہت زیادہ منافع ہوا۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے ’’میسرہ‘‘نامی اپناایک غلام بھی اس سفرمیں آپؐکے ہمراہ روانہ کیاتھا،اس نے واپس مکہ پہنچنے پرحضرت خدیجہؓ کے سامنے آنکھوں دیکھاحال بیان کیا، آپؐ کی راست بازی،معاملہ فہمی، پرہیزگاری ،امانت ودیانت،فہم وفراست ،حسنِ تعامل ،ودیگرصفاتِ حمیدہ کاتذکرہ کیا،یہ سب کچھ حضرت خدیجہ کیلئے انتہائی فرحت ومسرت اوراطمینان کاباعث بنا۔ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوباربیوہ ہوچکی تھیں،ان کاپہلانکاح عتیق مخزومی سے ٗ اورپھراس کی موت کے بعددوسرانکاح ہندتمیمی سے ہواتھا۔ دوسری باربھی جب وہ بیوہ ہوگئیں توان کے مقام ورتبے اورمال ودولت کی وجہ سے بڑے بڑے سردارانِ قریش متعددبارانہیں پیغامِ نکاح بھجواچکے تھے،لیکن حضرت خدیجہؓ اپنی ذہانت وفہم وفراست کی وجہ سے اس حقیقت کوخوب جان چکی تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے،یہ سبھی لوگ لالچی اورمحض مال وجمال کے بھوکے ہیں… اسی لئے وہ ایسے تمام پیغامات کوردکرچکی تھیں۔ ایسے میں رسول اللہﷺجب حضرت خدیجہ ؓکامالِ تجارت لے کرگئے اوراس سفرمیں منافع بہت زیادہ ہوا… اورپھریہ کہ سفرسے واپسی پرآپؐنے حضرت خدیجہؓ کواس تجارت کاحساب وکتاب پیش کیا… اورچپ چاپ چل دئیے…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہابس سوچتی ہی رہ گئیں کہ کس قدرعجیب وغریب ہے یہ نوجوان … کس قدرسچااورمخلص ہے یہ انسان… کس قدرسچی اورصاف ستھری ہے اس کی تجارت… کتنی معصومیت ہے اس کی ہرادامیں… دوسروں کی بنسبت منافع کس قدرزیادہ لایاہے… لیکن معاوضے کے معاملے میں کوئی تقاضانہیں… کوئی مطالبہ نہیں… کوئی بحث وتکرارنہیں… معاوضہ جوملابس چپ چاپ قبول کرلیا…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکیلئے یہ سب کچھ انتہائی باعثِ حیرت تھا… ایک طرف مسلسل پیغامات بھیجنے والے بڑے بڑے سردارانِ قریش جوکہ دراصل حرص وطمع کے مارے ہوئے اورمال وزرکے پجاری تھے… اوردوسری طرف سیدھاسادھا ٗسچا ٗمخلص اوراس قدرقناعت پسند ٗ متوکل وقانع قسم کایہ نوجوان…! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآپﷺکی یہی ادابھاگئی ،اوروہ سمجھ گئیں کہ یہی توان کی وہ متاعِ گمشدہ ہے جس کی وہ مدت سے متلاشی تھیں…! تب حضرت خدیجہ ؓنے اپنے دل کی بات اپنی ایک خاص رازدارسہیلی نفیسہ بنت مُنَبِّہ سے کہی،اورانہیں آپﷺ کی طرف پیغامِ نکاح لے کرجانے کوکہا۔نفیسہ نے یہ پیغام آپؐ تک پہنچایا،جس پرآپ ﷺنے اپنے چچاؤں خصوصاً جناب ابوطالب اورحضرت حمزہ ؓسے مشورہ کیا،ان دونوں نے اس رشتے کی تائیدکی ،اورپھریہ دونوں آپﷺکی طرف سے اظہارِرضامندی کے طورپرحضرت خدیجہؓ کے چچاعمروبن اسدکے پاس پہنچے اورآپؐکی طرف سے رضامندی کی انہیں اطلاع دی،اوریوں آپﷺ اورحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہااس رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے،اوریہ مبارک ترین رشتہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وفات تک ٗ یعنی مسلسل پچیس برس قائم رہا۔ رسول اللہﷺ کی یہ پہلی شادی تھی،جبکہ حضرت خدیجہؓ اس سے قبل دوباربیوہ ہوچکی تھیں،اس شادی کے وقت آپﷺکی عمرمبارک پچیس سال ٗ جبکہ حضرت خدیجہؓ کی عمرچالیس سال تھی۔ ۔[49] حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔ حضرت خدیجہ علیہا السلام سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی چار بیٹیاں حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پیدا ہوئیں۔ بعض علمائے اہلِ تشیع کے مطابق حضرت فاطمہ علیہا السلام کے علاوہ باقی بیٹیاں حضرت خدیجہ علیہا السلام کی بھانجیاں تھیں۔

بعثت (پہلی وحی)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غور و فکر کے لیے مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے، اس وقت سورۃ العلق کی وہ آیات نازل ہوئیں جن کا تذکرہ شروع میں ہوا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباًً چالیس برس تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا، آپ کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباًً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔

مخالفت

جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ 'اللہ' کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ نجاشی حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔

619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔

معراج

مسجدِ اقصیٰ، جہاں سے سفرِ معراج کی ابتداء ہوئی

620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آسمانوں میں اللہ تعالٰی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپ کی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔۔[50]

مدنی زندگی

ہجرت

622ء تک مسلمانوں کے لیے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں اپنی جگہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مدینہ پہنچنے پر انصار نے ان کا شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہو گیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کے درمیان میں عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی تقویم کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ہونے والے معاہدہ 'میثاق مدینہ' نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔

میثاقِ مدینہ

میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاریٰ) کے درمیان میں جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا۔ معاہدے کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تواریخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔[51][52][53][54][55][56][57]

یہود و مشرکین کی سازشیں

میثاقِ مدینہ کے بعد یہود مجبور تھے کہ وہ علی الاعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اسلام کے خلاف بات نہ کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے خفیہ سازشیں شروع کیں جن میں سے ایک ادب اور اظہارِ آزادی کی آڑ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی حملہ کرنا تھا۔ عرب لوگ جو شعر و شاعری کے بڑے خوگر تھے ان کے لیے شاعری کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہتک کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام میں ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات کی اہمیت و درجہ مال و جان و اولاد سے زیادہ نہ ہوجائے۔ اس سلسلے میں تین شعرا نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف ہجو لکھیں۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا جو یہودی تھا دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابوعفک تھا۔ جب وہ شاعر حد سے گزر گئے اور ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انہی کے قبیلے کے افراد نے قتل کر ڈالا۔ کعب بن الاشرف کو ان کی ایک رشتہ دار ابونائلہ نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف نے قتل کر دیا۔ ابو عفک کو حضرت سالم بن عمیر نے قتل کیا۔[58]

جنگیں

مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

  • غزوہ بدر : 17 رمضان (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقامات پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان میں غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔ جنگ میں فتح کے بعد مسلمان مدینہ میں ایک اہم قوت کے طور پر ابھرے۔
  • غزوہ احد :7 شوال (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 نفری لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی۔ آپ نے مسلمانوں کے ایک گروہ کو ایک ٹیلے پر مقرر فرمایا تھا اور یہ ہدایت دی تھی کہ جنگ کا جو بھی فیصلہ ہو وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید نے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا۔ یہ حملہ اچانک تھا۔ مسلمانوں کو اس سے کافی نقصان ہوا لیکن کفار چونکہ پیچھے ہٹ چکے تھے اس لیے واپس چلے گئے۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔
  • غزوہ خندق (احزاب): شوال۔ ذی القعدہ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔
  • غزوہ بنی قریظہ: ذی القعدہ۔ ذی الحجہ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔
  • غزوہ بنی مصطلق: شعبان (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • غزوہ خیبر: محرم (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔
  • جنگِ موتہ: 5 جمادی الاول (اگست۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔
  • غزوہ فتح (فتحِ مکہ): رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباًً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔
  • غزوہ حنین: شوال (جنوری۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔
  • غزوہ تبوک: رجب (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے اور کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے، مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا اور مسلمانوں کی طاقت کے چرچے عرب میں دور دور تک ہو گئے۔

صلح حدیبیہ

مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ (عربی میں صلح الحديبيۃ) کہتے ہیں۔ 628ء (6 ھجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ عرب کے رواج کے مطابق غیر مسلح افراد چاہے وہ دشمن کیوں نہ ہوں کعبہ کی زیارت کر سکتے تھے جس میں رسومات بھی شامل تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان تقریباًً غیر مسلح تھے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ اس وقت تک مسلمان انتہائی طاقتور ہو چکے تھے مگر یہ یاد رہے کہ اس وقت مسلمان جنگ کی تیاری کے ساتھ نہیں آئے تھے۔ اسی لیے بعض لوگ چاہتے تھے کہ جنگ ضرور ہو۔ خود مسلمانوں میں ایسے لوگ تھے جن کو معاہدہ کی شرائط پسند نہیں تھیں۔ مثلاً اگر کوئی مسلمان مکہ کے لوگوں کے کے پاس چلا جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا مگر کوئی مشرک مسلمان ہو کر اپنے بزرگوں کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کیا جائے گا۔ مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔ اس معاہدہ سے پہلے جب مسلمانوں کے ایک نمائندے کو مشرکین نے روک لیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں سے اپنی بیعت بھی لی جسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ اس بیعت میں مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اس معاہدہ کے بہت سود مند اثرات برآمد ہوئے۔

حکمرانوں کو خطوط

صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ھرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا اور بعض روایات کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پیشینگوئی کی تھی کہ اس کی سلطنت اسی طرح ٹکرے ٹکرے ہو جائے گی۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے اور حضرت ماریہ قبطیہ کو روانہ کیا جن سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔۔[59]

فتح مکہ

اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ بنو قزع کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اتحاد تھا جبکہ ان کے مخالف بنو بکر قریش مکہ کے ساتھ تھے۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزع کے کچھ لوگ قتل کر دیے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی جبکہ بعض روایات کے مطابق چند قریش بذات خود بھی حملہ آروں میں شامل تھے۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔

قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لیے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت تک قریش کے خلاف چڑھائی کی تیاری شروع کر چکے تھے۔

630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ ایک چھوٹی سے جھڑپ کے علاوہ تمام کارروائی پر امن انداز سے مکمل ہو گئی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

حجۃ الوداع

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ھ میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ھ (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں انہوں نے اسلامی تعلیمات کا ایک نچوڑ پیش کیا اور مسلمانوں کو گواہ بنایا کہ انہوں نے پیغامِ الٰہی پہنچا دیا ہے۔ اور یہ بھی تاکید کی کہ یہ باتیں ان لوگوں کو بھی پہنچائی جائیں جو اس حج میں شریک نہیں ہیں۔ اس خطبہ میں انہوں نے یہ فرمایا کہ شاید مسلمان انہیں اس کے بعد نہ دیکھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ مسلمان پر دوسرے مسلمان کا جان و مال حرام ہے۔ اور یہ بھی کہ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے اسلام کے حرام و حلال پر بھی روشنی ڈالی۔ خطبہ کے آخر میں انہوں نے تاکید کی کہ جو حاضر ہے وہ غائب تک اس پیغام کو پہنچائے۔ ان دو خطبات کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیرِ خم کے مقام پر بھی خطبہ دیا جو خطبہ غدیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس حج کے تقریباًً تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کو پیارے ہو گئے۔[60]

وفات

حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انتقال کر گئے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔

آپﷺ کو منگل کے روز کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ رسول اللہ کو غسل دینے والے افراد میں سیدنا عباس، حضرت اسامہ، اوس بن خولیٰ، حضرت عباس کے دو بیٹے قثم اور فضل اور رسول اللہﷺ کے آزاد کردہ غلام شقران شامل تھے۔ حضرت عباس اور ان کے دونوں صاحب زادے رسول اللہﷺ کی کروٹ بدل رہے تھے، حضرت اسامہ اور شقران پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علی غسل دے رہے تھے اور حضرت اوس نے آپﷺ کو اپنے سینے پر ٹیک رکھا تھا۔[61] رسول اللہ کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین بار غسل دیا گیا۔ پانی عرس نامی قباء میں واقع حضرت سعد بن خثیمہ کے کنویں کا تھا۔ آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں بھی پینے کے لیے اس کنویں کا پانی استعمال فرماتے تھے۔[62] پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تین سفید سوتی یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی بس آپ کو صرف چادروں میں لپیٹا گیا۔[63] حضرت ابوطلحہ نے آپ کی قبر اسی جگہ کھودی جہاں آپ نے وفات پائی تھی۔ قبر لحد والی کھودی پھر آپ کی چارپائی قبر کے کنارے رکھ دی گئی اور پھر دس دس صحابہ اندر داخل ہوتے جاتے اور فرداً فرداً نماز ادا کرتے، کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ کے خانوادے نے نماز پڑھی، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے اور پھر بچوں نے، پھر عورتوں نے یا پہلے عورتوں نے پھر بچوں نے۔[64] نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا ہی دن اور منگل کی بیشتر رات گزر گئی جس کے بعد رات کے اواخر میں رسول اقدس کو سپرد خاک کر دیا گیا۔[65] جنازے میں شریک افراد کے بارے اختلاف ہے۔

امہات المؤمنین اور اولاد

مؤمنین کی والدہ
ام المؤمنین
امہات المؤمنین - (ازواج مطہرات)

امہات المومنین

مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین _ محسن

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مختلف روایات میں گیارہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ جن عورتوں سے آپﷺ نے عقد فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی۔ جن میں سے نو عورتیں آپﷺ کی رحلت کے وقت حیات تھیں۔ اور دوعورتیں آپﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھیں۔ (یعنی حضرت خدیجہؓ اور ام المساکین حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہما ) ان کے علاوہ مزید دوعورتیں ہیں جن کے بارے میں اختلاف ہے کہ آپﷺ کا ان سے عقد ہوا تھا یا نہیں لیکن ا س پر اتفاق ہے کہ انہیں آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کیا گیا۔[66] نبی کریم ﷺ کی ازواج میں زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

  • حضرت خدیجہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہما سے ہوئی۔ شادی کے وقت آپﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔ اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ ان کے جیتے جی آپﷺ نے کوئی اور شادی نہیں کی۔ آپﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیم کے ماسوا تمام بیٹے اور صاحبزادیاں ا ن ہی حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھیں۔ صاحبزادگان میں سے تو کوئی زندہ نہ بچا۔ البتہ صاحبزادیاں حیات رہیں۔ ان کے نام یہ ہیں : زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ - زینبؓ کی شادی ہجرت سے پہلے ان کے پھوپھی زاد بھائی حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی۔ رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کی شادی یکے بعد دیگرے حضرت عثمانؓ سے ہوئی۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی عرصہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے ہوئی۔ اور ان کے بطن سے حسن، حسین رضی اللہ عنہما، زینب اور ا م کلثوم رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔[66]
  • حضرت سودہ بنت زمعہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان سے رسول اللہﷺ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تقریباًً ایک مہینہ بعد نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں شادی کی۔ آپﷺ سے پہلے حضرت سَوْدَہؓ اپنے چچیرے بھائی سکران بن عَمرو کے عقد میں تھیں۔ اور وہ انہیں بیوہ چھوڑ کر انتقال کر چکے تھے۔ حضرت سودہ کی وفات شوال 54ھ میں مدینہ کے اندر ہوئی۔[67]
  • حضرت زینب بنت خزیمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ قبیلہ بنو ہلال بن عامر بن صَعْصَعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مسکینوں پر رحم ومروت اوررقّت ورأفت کے سبب ان کا لقب اُمّ المساکین پڑ گیا تھا۔ یہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے عقد میں تھیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تو رسول اللہﷺ نے 4ھ میں ان سے شادی کرلی۔ مگر صرف تین ماہ یا آٹھ ماہ رسول اللہﷺ کی زوجیت میں رہ کر ربیع الآخر یا ذی قعدہ 4ھ میں وفات پاگئیں۔ نبیﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[67]
  • حضرت ام سلمہ ہند رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ابو سلمہؓ کے عقد میں تھیں۔ جمادی الآخر 4ھ میں حضرت ابو سلمہؓ کا انتقال ہو گیا توان کے بعد شوال 4ھ میں رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی۔ فقیہ ترین اور نہایت عقلمند خاتون تھیں۔ چوراسی سال کی عمر میں 59ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 62ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[67]
  • حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ بنی اسرائیل سے تھیں۔ اور خیبر میں قید کی گئیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ اور آزاد کرکے شادی کرلی۔ یہ فتح خیبر 7ھ کے بعد کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد خیبر سے بارہ میل کی دوری پر مدینہ کے راستہ میں سد صہباء کے پاس انہیں رخصت کرایا۔ 50ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 52ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 36ھ میں وفات پائی۔ اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔[68]
  • حضرت جویریۃ بنت الحارث رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : ان کے والد قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو المصطلق کے سردار تھے۔ حضرت جویریہ بنو المصطلق کے قیدیوں میں لائی گئی تھیں۔ اور حضرت ثابت بن قیس بن شماسؓ کے حصے میں پڑی تھیں۔ انہوں نے حضرت جویریہؓ سے مکاتبت کرلی۔ یعنی ایک مقررہ رقم کے عوض آزاد کردینے کا معاملہ طے کر لیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کی طرف سے مقررہ رقم ادا فرمادی اوران سے شادی کرلی۔ یہ شعبان 5ھ یا 6ھ کا واقعہ ہے۔ اس شادی کے نتیجے میں مسلمانوں نے بنو المصطلق کے سو گھرانے آزاد کر دیے اورکہا کہ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے سسرالی ہیں۔ چنانچہ یہ اپنی قو م کے لیے ساری عورتوں سے بڑھ کر بابرکت ثابت ہوئیں۔ ربیع الاول 56ھ یا 55ھ میں وفات پائی۔ عمر 65برس تھی۔[68]
  • حضرت میمونۃ بنت الحارث الہلالیۃ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : یہ ام الفضل لبابہ بنت حارث ؓ کی بہن تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے ذی قعدہ 7ھ میں عمرہ ٔ قضاء سے فارغ ہونے … اور صحیح قول کے مطابق احرام سے حلال ہونے۔۔۔ کے بعد شادی کی اور مکہ سے 9میل دور مقام سرف میں انھیں رخصت کرایا۔ 61ھ اور کہا جاتا ہے کہ 63ھ میں وہیں ان کی وفات بھی ہوئی۔ اور وہیں دفن بھی کی گئیں۔ ان کی قبر کی جگہ آج بھی وہاں معروف ہے۔[68]
  • حضرت ام حبیبہ رملہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ عبید اللہ بن جحش کے عقد میں تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہجرت کر کے حبشہ بھی گئیں تھیں۔ لیکن عبید اللہ نے وہاں جانے کے بعد مرتد ہوکر عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ اور پھر وہیں انتقال کرگیا۔ مگر اُم حبیبہؓ اپنے دین اور اپنی ہجرت پر قائم رہیں۔ جب رسول اللہﷺ نے محرم 7ھ میں عَمرو بن اُمیہ ضمریؓ کو اپنا خط دے کر نجاشی کے پاس بھیجا تو نجاشی کو یہ پیغام بھی دیا کہ اُم حبیبہؓ سے آپﷺ کا نکاح کر دے۔ اس نے امِ حبیبہؓ کی منظوری کے بعدان سے آپﷺ کا نکاح کر دیا۔ اور شُرحبیل بن حسنہ کے ساتھ انہیں آپﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ نبیﷺ نے خیبر سے واپسی کے بعد ان کی رخصتی کرائی۔ 43ھ یا 44ھ یا 50ھ میں وفات پائی۔[68]
  • حضرت حفصہ بنت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا : آپ حضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر خنیس بن حذافہ سہمیؓ تھے جو بدر اور احد کے درمیانی عرصہ میں رحلت کر گئے اور وہ بیوہ ہوگئیں۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان سے شادی کرلی، شادی کا یہ واقعہ 3ھ کا ہے۔ شعبان 45ھ میں ساٹھ سال کی عمر میں مدینہ کے اندر وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن ہوئیں۔[67]
  • حضرت عائشہ بنت ابی بکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: آپ حضرت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں۔ ان سے رسول اللہﷺ نے نبوت کے گیارھوں برس ماہ شوال میں شادی کی، یعنی حضرت سودہؓ سے شادی کے ایک سال بعد۔ اور ہجرت سے دوبرس پانچ ماہ پہلے۔ اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ پھر ہجرت کے سات ماہ بعد شوال 1ھ میں انہیں رخصت کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر نو برس تھی۔ اور وہ باکرہ تھیں۔ ان کے علاوہ کسی اور باکرہ عورت سے آپﷺ نے شادی نہیں کی۔ حضرت عائشہؓ آپﷺ کی سب سے محبوب بیوی تھیں۔ اور امت کی عورتوں میں علی الاطلاق سب سے زیادہ فقیہ اور صاحب علم تھیں۔ عورتوں پر ان کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے تمام کھانو ں پر ثرید کی فضیلت۔ 17/ شعبان 57ھ یا 58ھ میں حضرت عائشہ ؓ نے وفات پائی۔ اور بقیع میں دفن کی گئیں۔[67]
  • حضرت زینب بنت جحش رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا: یہ قبیلہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور رسول اللہﷺ کی پھوپھی کی صاحبزادی تھیں۔ ان کی شادی پہلے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی تھی۔ جنہیں رسول اللہﷺ کا بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن حضرت زیدؓ سے نباہ نہ ہو سکا اور انہوں نے طلاق دیدی۔ خاتمہ ٔ عدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرً‌ا زَوَّجْنَاكَهَا (الاحزاب: 37)جب زید نے ان سے اپنی ضرورت ختم کر لی تو ہم نے انہیں آپ کی زوجیت میں دے دیا۔

انہیں کے تعلق سے سورۂ احزاب کی مزید کئی آیا ت نازل ہوئیں جن میں مُتَبنّیٰ (لے پالک ) کے قضیے کا دوٹوک فیصلہ کر دیا گیا - حضرت زینبؓ سے رسول اللہﷺ کی شادی ذی قعدہ 5ھ میں اور کہا جاتا ہے کہ 4ھ میں ہوئی۔ یہ سب عورتوں سے بڑھ کر عبادت گزار اورصدقہ کرنے والی خاتون تھیں۔ 20ھ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر 53سال تھی۔ اور یہ رسول اللہﷺ کے بعد امہات المؤمنین میں پہلی بیوی ہیں جن کا انتقال ہوا۔ حضرت عمر بن خطابؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[68]

یہ گیارہ بیویاں ہوئیں جو رسول اللہﷺ کے عقد نکاح میں آئیں۔ اور آپﷺ کی صحبت ورفاقت میں رہیں۔ ان میں سے دوبیویاں، یعنی حضرت خدیجہ اور حضرت زینب ام المساکینؓ کی وفات آپﷺ کی زندگی ہی میں ہوئی۔ اور نو بیویاں آپﷺ کی وفات کے بعد حیات رہیں۔ ا ن کے علاوہ دو اور خواتین جو آپﷺ کے پاس رخصت نہیں کی گئیں۔ ان میں سے ایک قبیلہ بنو کلاب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور ایک قبیلہ کندہ سے، یہی قبیلہ کِنْدہ والی خاتون جونیہ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ان کا آپﷺ سے عقد ہوا تھا یانہیں اور ان کا نام ونسب کیا تھا اس بارے میں اہل ِ سیر کے درمیان میں بڑے اختلافات ہیں۔

جہاں تک لونڈیوں کا معاملہ ہے تو مشہور یہ ہے کہ آپﷺ نے دولونڈیوں کو اپنے پاس رکھا۔ ایک ماریۃ القبطیۃ کو جنہیں مقوقس فرمانروائے مصر نے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ ان کے بطن سے آپﷺ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ جو بچپن ہی میں 28یا 29شوال 10ھ مطابق 27جنوری 632ء کو مدینہ کے اندر انتقال کر گئے۔[69]

دوسری لونڈی ریحانہ بنت زید تھیں۔ جو یہود کے قبیلہ بنی نضیر یا بنی قریظہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بنو قریظہ کے قیدیو ں میں تھیں۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اپنے لیے منتخب فرمایا تھا اور وہ آپﷺ کے زیر دست تھیں۔ ان کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ انہیں نبیﷺ نے بحیثیت لونڈی نہیں رکھا تھا بلکہ آزاد کر کے شادی کرلی تھی لیکن ابن قیم کی نظر میں پہلا قول راجح ہے۔ ابو عبید ہ نے ان دولونڈیوں کے علاوہ مزید دو لونڈیوں کا ذکر کیا ہے۔ جس میں سے ایک کا نام جمیلہ بتایا جاتا ہے، جوکسی جنگ میں گرفتار ہوکر آئی تھیں۔ اور دوسری کوئی اور لونڈی تھیں جنہیں حضرت زینب بنت جحش نے آپ کو ہبہ کیا تھا۔[70]

خطوطِ نبوی

مشہور صحابہ

غصہ

غصہ غیرت کی علامت ہے ایک غصہ وہ ہے جو عام کوئی بھی بات پر آجاتا ہے، اور بعض ایسا غصہ کرنے والے اپنے آپ کو بڑابہادر سمجھتے ہیں، دوسرا غصہ وہ ہے جوتلخ بات سن کر آجاتاہے، کڑوے جملے، ناگزیر رویوں، لفظ کی تیزی یا زہر بھرے رویے سے آتا ہے آپ ﷺ کو کبھی بھی غصہ نہیں آیا کسی بھی بد اخلاق رویے آپﷺ کی پیشانی پر شکن نہیں ڈال سکے، ایک غصہ وہ ہوتا ہے جس کا آنا ایمانی غیرت ہے اور نہ آنا بزدلی ہے یہ وہ غصہ ہے جو غیر شرعی امور کو دیکھ کرآتاہے جیسے ایک مؤمن گھر میں اللہ کی نافرمانی دیکھ کر غصہ کرتا ہے یا تربیتی امور کو متاثر کر نے والی چیز کو دیکھ کر آپ کو غصہ آجانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں:
لقد جلست أنا وأخي مجلسا ما أحب أن لي بہ حمر النعم، أقبلت أنا وأخي، وإذا مشيخة من صحابة رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - جلوس عند باب من أبوابہ، فكرهنا أن نفرق بينهم، فجلسنا حجرة، إذ ذكروا آية من القرآن، فتماروا فيها، حتى ارتفعت أصواتهم، فخرج رسول اللہ - صلى اللہ عليہ وسلم - مغضبا، قد احمر وجهہ، يرميهم بالتراب، ويقول: "مهلا يا قوم، بهذا أهلكت الأمم من قبلكم، باختلافهم على أنبيائهم، وضربهم الكتب بعضهاببعض، إن القرآن لم ينزل يكذب بعضہ بعضا، بل يصدق بعضہ بعضا، في عرفتم منہ فاعملوا بہ، وما جهلتم منہ فردوہ إلى عالمہ [71]
ترجمہ:میں اور میرے بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں۔پھر میں نے کچھ بزرگ صحابہ کومسجد نبوی کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا۔ہم نے ان کے درمیان میں گھس کر تفریق کرنے کو اچھا نہیں سمجھا اس لیے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔اس دوران میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے قرآن ایک آیت کا تذکرہ چھیڑااور اس میں ان کے درمیان میں اختلاف رائے ہوگئی یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔نبی ﷺ غصہ کی حالت میں باہر نکلے۔آپﷺ کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھااور آپ ﷺ مٹی پھینک رہے تھے اور فرمارہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی اُمتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیااور اپنی کتابوں کے حصہ کو دوسرے حصے پر مارا۔قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا کہ تم اس کے ایک حصہ سے دوسرے حصے کی تکذیب کرو، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تصديق کرتا ہے، اس لیے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کرواور جو معلوم نہ ہوتو اس کے عالم سے معلوم کرلو۔

غیر مسلم مشاہیر کے خیالات

مغربی مصنف مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب The Hundred میں دنیا کے ان سو عظیم ترین آدمیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے دنیا کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سب سے پہلے شمار پر رکھا ہے۔ مصنف ایک عیسائی ہوکر بھی اپنے دلائل سے یہ ثابت کرتاہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پورے نسل انسانی میں سیّدالبشر کہنے کے لائق ہیں۔[72] تھامس کارلائیل نے 1840ء کے مشہور دروس (لیکچرز) میں کہا کہ ”میں محمد سے محبت کرتاہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ان کی طبیعت میں نام ونمود اور ریا کا شائبہ تک نہ تھا۔ ہم انہی صفات کے بدلے میں آپ کی خدمت میں ہدیہً اخلاص پیش کرتے ہیں “۔ فرانس کا شہنشاہ نپولین بوناپارٹ کہتاہے ” محمد دراصل سروراعظم تھے۔15سال کے قلیل عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاﺅں کی پرستش سے توبہ کرڈالی۔ مٹی کی بنی دیویاں مٹی میں ملا دی گئیں۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرت کی تعلیم کا “۔ جارج برناڈشا لکھتا ہے ” موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد اس دنیا کے رہنما بنیں “۔ گاندھی لکھتا ہے کہ ” بانی اسلام نے اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دی جس نے انسان کو سچائی کا راستہ دکھایا اور برابری کی تعلیم دی۔ میں اسلام کا جتنا مطالعہ کرتاہوں اتنا مجھے یقین راسخ ہوجاتاہے کہ یہ مذہب تلوار سے نہیں پھیلا “۔ جرمنی کا مشہور ادیب شاعر اور ڈراما نگار ”گوئٹے “ حضور کا مداح اور عاشق تھا۔ اپنی تخلیق ”دیوانِ مغربی“میں گوئٹے نے حضور اقدس کی بارگاہ میں جگہ جگہ عشق محمد کا اظہار کیا ہے اور ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ فرانس کے محقق ڈی لمرٹائن نے اپنی کتاب ”تاریخِ ترکی“ میں انسانی عظمت کے لیے جو معیار قائم کیا اس ضمن میں فاضل تاریخ دان لکھتاہے ” اگر انسانی عظمت کو ناپنے کے لیے تین شرائط اہم ہیں جن میں (1)۔ مقصد کی بلندی، (2)۔ وسائل کی کمی، (3)۔ حیرت انگیر نتائج۔ تو اس معیار پر جدید تاریخ کی کو ن سی شخصیت محمد سے ہمسری کا دعویٰ کرسکتی ہے “۔ فرانسیسی مصنف دی لمرتین لکھتاہے ” فلسفی، مبلغ، پیغمبر، قانون سا ز، سپاہ سالار، ذہنو ں کا فاتح، دانائی کے عقائد برپا کرنے والا، بت پرستی سے پاک معاشرہ تشکیل دینے والا۔ بیسیوں ریاستوں کو ایک روحانی سلطنت میں متحد کرنے والا۔۔۔۔وہ محمد ہیں۔۔۔۔جہاں تک انسانی عظمت کے معیار کا تعلق ہے ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ان معیاروں پر پورا اُترنے والا محمد سے بھی کوئی برتر ہوسکتا ہے “۔؟ ڈاکٹر شیلے پیغمبر آخرالزماں کی ابدیت اور لاثانیت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” محمد گزشتہ اور موجودہ لوگوں میں سب سے اکمل اور افضل تھے اور آئندہ ان کا مثال پیدا ہونا محال اور قطعاً غیر ممکن ہے“۔[73]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا جلد 11
  2. انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا
  3. مسند احمد جلد 1 صفحہ 361
  4. (سورہ الزمر : ٣٩/٣)
  5. (سورہ آل عمران : ٣/٩٦)
  6. (سورہ النازعات : ٧٩/٢٦)
  7. (سورہ الفیل : ١٠٥/١ تا ٥)
  8. (سورہ ق : ٥٠/٣٧)
  9. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  10. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  11. (تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦١)
  12. (صحیح مسلم ، کتاب الصیام ، حدیث 2750 )
  13. (فتح الباری جلد ٦‘ تاریخ ابن کثیر جلد ٢ ص ٢٦٠)
  14. (سورہ الجمعۃ : ٦٢/٢)
  15. (سورہ التوبۃ : ٩/١٢٨)
  16. (سورہ آل عمران : ٣/١٦٤)
  17. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٧)
  18. (سورہ النحل : ١٦/١٠٣)
  19. (القصد والامم ص ٢٢ والانباہ علیٰ قبائل الرواۃ ص ٤٦)
  20. البدایہ والنہایہ جلد ٢۔
  21. (صحیح مسلم ،کتاب الانبیاء حدیث 5938)
  22. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  23. (سورہ الحجرات : ٤٩/١٣)
  24. (مجمع الفوائد جلد ١ از معجم طبرانی کبیر)
  25. (سنن ابو داؤد کتاب التفسیر ‘ جامع ترمذی کتاب التفسیر )
  26. مشکوٰۃ۔ باب سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
  27. مستدرک الحاکم
  28. خصائصِ کبریٰ جلد اول صفحہ 48
  29. (سورہ الضحٰی : ٩٣/٦ تا ٨)
  30. تفسیر ابن کثیر سورہ الضحیٰ
  31. (سورہ الضحیٰ : ٩٣/٧)
  32. (سورہ الشورٰی : ٤٢/٥٢)
  33. (تفسیر ابن کثیر , سورہ الضحیٰ)
  34. ( زرقانی ص ۱۳۷ ج ۱ ۔ )
  35. (فتح الباری ص ۱۲۴ ج ۹ - کتاب النکاح - )
  36. روض الانف ج 1 ، صفحہ ۱۰۹
  37. خصائص کبری صفحہ ۵۴ جلد 1
  38. البدایہ والنھایہ ص ۲۷۵ ج ۲
  39. (مسلم:۲۴۰،کتاب الایمان)
  40. سیرت ابن هشام، ج ا ص ۵۶، نیز مجمع الزوائد ج ۸ ۱ : صفحہ ۲۳ ۔
  41. (مسلم:۹۷۶ ، کتاب الجنائز)
  42. روض الانف ج 1 صفحہ 111
  43. زرقانی جلد 1 صفحہ 162,163
  44. الفصول فی سیرۃ الرسول ﷺ،از: ابن کثیر،صفحہ:۹۳
  45. البدایۃ والنہایۃ ،تاریخ لابن کثیر، سیرت محمد
  46. تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 34
  47. سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 177
  48. تاریخ طبری جلد 1 صفحہ 575
  49. البدایہ و النہایہ جلد 2 صفحہ 294
  50. مناقب شہر آشوب جلد اول صفحہ 43
  51. ابو داؤد السجستانی۔ سنن۔ دار الاحیاء السنۃ النبویۃ۔ بیروت
  52. ابن سعد، الطبقات الکبری۔ بیروت
  53. ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، مکتبۃ المعارف بیروت الطبعۃ الثانیۃ 1978ء
  54. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، الوثائق السیاسیۃ، دارالارشاد، بیروت
  55. ژاں ژاک روسو، معاہدہ عمرانی، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد۔ 1998ء
  56. محمد حمید اللہ، ڈاکٹر، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، اردو اکیڈمی سندھ 1981ء
  57. میثاقِ مدینہ از ڈاکٹر طاہر القادری[مردہ ربط]
  58. حرفِ زار از اوریا مقبول جان[مردہ ربط]
  59. الطبقات الکبریٰ جلد اول صفحہ 260 تا 262
  60. سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 603
  61. سنن ابن ماجہ، الکتاب الجنائز، حدیث 1628
  62. طبقات ابن سعد
  63. صحیح البخاری، حدیث :1264
  64. موطا امام مالک 231/1، و طبقات ابن سعد 292-298
  65. مسند احمد 62/6 و 274
  66. ^ ا ب الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 634
  67. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 635
  68. ^ ا ب پ ت ٹ الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 636
  69. الرحیق المختوم(اردو) صفحہ نمبر 637
  70. زاد المعاد 1/29
  71. احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، رقم الحدیث: 6703، ج -6،مطبوعۃ: دار الحديث، القاهرة، 1416 هـ، ص :252
  72. سو (The Hundred ) از مائیکل ہارٹ
  73. http://www.kashmiruzma.net/full_story.asp?Date=27_6_2008&ItemID=4&cat=9 آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ kashmiruzma.net (Error: unknown archive URL) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔ غیر مسلموں کی نظر میں