جامعہ نعیمیہ مراد آباد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جامعہ نعیمیہ مراد آباد ایک عظیم دینی درسگاہ ہے۔

محل وقوع[ترمیم]

یہ درسگاہ دیوان بازار مراد آباد اترپردیش انڈیا میں قائم ہے اس کے بانی صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ہیں۔ یہ جامعہ انجمن اہلسنت مراد کے کاوش سے 1329ھ سے قائم ہے۔

جامعہ نعیمیہ مراد آباد کا قیام[ترمیم]

صدر الافاضل نے 1328ھ میں ارادہ فرمایا کہ ایک ایسا مدرسہ قائم کرنا چاہیے جس میں معقول و منقول کی معیاری تعلیم ہو چنانچہ آپ نے سب سے پہلے ایک انجمن بنائی جس کے ناظم آپ اورصدر حکیم حافظ نواب حامی الدین احمد صاحب مراد آبادی ہوئے۔ اس انجمن کے تحت ایک مدرسہ قائم فرمایا جس کومدرسہ اہل سنت کہا جاتا تھا جب نواب صاحب اور ان کے رفقا و ہمنواؤں کا انتقال ہو گیا تو انجمن خود بخود ختم ہو گئی اب مدرسہ آپ کی طرف منسوب کیاجانے لگا اور وہ مدرسہ نعیمیہ کے نام سے مشہور ہواپھر جب اس کے فارغ التحصیل طلبہ و علما نے اطراف واکناف اور ملک میں پھیل کر اپنے اپنے مقامات پر مدرسے قائم کیے اور ان کا الحاق مراد آباد کے مرکزی مدرسہ نعیمیہ سے کیا اورملک کے دیگر مدارس اہل سنت میں سے بیشتر اسی مدرسہ سے ملحق ومنسلک ہو گئے تو لازمی طور پر اب اس مدرسہ کی حیثیت رائج الوقت زبان میں یونیورسٹی اور قدیم زبان میں ’’جامعہ ‘‘کی ہو گئی۔ چنانچہ 1352ھ میں اس مدرسہ کا نام ’’جامعہ نعیمیہ ‘‘ رکھا گیا اور آج تک اسی نام سے قائم ومشہور ہے ۔[1]

فضلاء جامعہ نعیمیہ[ترمیم]

اس مدرسہ کے بہت نامی گرامی فارغ التحصیل ہیں جن میں
ابو البرکات سید احمد قادری ابوالحسنات سید محمد احمد قادری، مولانا نوراللہ نعیمی، مولانا عبد العزیز خاں، مولانا عبد الرشید خاں، مولانا اجمل شاہ، مفتی احمد یار خان، مولانا یونس، مولانا آل حسن سنبھلی، ٹھاروشاہ سندھ میں مفتی محمد عبد الجلیل نقشبندی، مدرسہ عین العلوم شاہ جہاں پو ر میں علامہ سید احمد سعید کاظمی اور مدرسہ منظر حق نانڈا میں مولانا عبد الحفیظ حقانی شامل ہیں۔

تفسیری خدمات[ترمیم]

جامعہ سے فارغ التحصیل افراد نے تفاسیر بھی لکھیں۔

نعیم البیان فی تفسیر القرآن[ترمیم]

اسے علامہ نعیم الدین مرادآبادی کے شاگرد علامہ سید غلام معین الدین نعیمی نے لکھا ہے۔[2]

تفسیر الحسنات[ترمیم]

تفسیر الحسنات کے مفسر ابو الحسنات سید احمد قادری ہیں۔ یہ تفسیر سات جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ چھبیس پارے میں سورہ ق تک تفسیر آپ نے خود فرمائی اور باقی چار پاروں کی تفسیر آپ کے صاحب زادے مولانا محمد خلیل کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔  [3]

نور العرفان[ترمیم]

مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی نے اپنے استاذ علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی کے تفسیری حاشیہ "خزائن العرفان" کی طرح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ترجمۂ قرآن "کنزالایمان" پر "نور العرفان" کے نام سے تفسیری حاشیہ لکھا۔[4]

تفسیر نعیمی[ترمیم]

تفسیر نعیمی کے مفسر بھی مفتی احمد یار خان نعیمی ہی ہیں۔ اس تفسیر کا تاریخی نام "اشرف التفاسیر" ہے۔ یہ نامکمل تفسیر ١٩ جلدوں میں شائع ہوتی ہے، جو آپ اور آپ کے فرزند مفتی اقتدار احمد خان نعیمی کی مشترکہ کاوش ہے۔ [5]

تفسیر ضیاء القرآن[ترمیم]

علامہ جسٹس پیر کرم شاہ ازہری نے سنہ ١٩٧٠ء کے عشرے سے ذرا پہلے یا اس کے شروع میں اس تفسیر کا آغاز کیا۔ یہ تفسیر ١٩ سال کی مسلسل شب و روز سعی سے مکمل ہوئی۔ یہ تفسیر 3500صفحات اور 5 جلدوں پر مشتمل ہے۔ [6] [7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جامعہ نعیمیہ مراد آباد کا قیام : حضور صدر الافاضل نے 1328ھ
  2. نعیم البیان فی تفسیر القرآن/ص: ٢ 
  3. ششماہی التفسیر کراچی/جنوری تا جون ٢٠٢٠ء/ص: ٦٨ 
  4. تذکرة المفسرین للادروی /ص: ١١ 
  5. تذکرة المفسرین/ص: ١٢ 
  6. تفسیر قرآن "ضیاء القرآن" پر ایک نظر 
  7. برصغیر کے سنی مفسرین کی تفسیری خدمات/ از: محمد سلیم انصاری ادروی