تبادلۂ خیال صارف:اعجاز احمد وانی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خوش آمدید![ترمیم]

ہمارے ساتھ سماجی روابط کی ویب سائٹ پر شامل ہوں: اور

(?_?)
ویکیپیڈیا میں خوش آمدید

جناب اعجاز احمد وانی کی خدمت میں آداب عرض ہے! ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اُردو ویکیپیڈیا کے لیے بہترین اضافہ ثابت ہوں گے۔
ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری سنہ 2001ء میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجرا جنوری 2004ء میں عمل میں آیا۔ فی الحال اردو ویکیپیڈیا میں کل 206,884 مضامین موجود ہیں۔
اس دائرۃ المعارف میں آپ مضمون نویسی اور ترمیم و اصلاح سے قبل ان صفحات پر ضرور نظر ڈال لیں۔



یہاں آپ کا مخصوص صفحۂ صارف بھی ہوگا جہاں آپ اپنا تعارف لکھ سکتے ہیں، اور آپ کے تبادلۂ خیال صفحہ پر دیگر صارفین آپ سے رابطہ کر سکتے ہیں اور آپ کو پیغامات ارسال کرسکتے ہیں۔

  • کسی دوسرے صارف کو پیغام ارسال کرتے وقت ان امور کا خیال رکھیں:
    • اگر ضرورت ہو تو پیغام کا عنوان متعین کریں۔
    • پیغام کے آخر میں اپنی دستخط ضرور ڈالیں، اس کے لیے درج کریں یہ علامت --~~~~ یا اس () زریہ پر طق کریں۔


ویکیپیڈیا کے کسی بھی صفحہ کے دائیں جانب "تلاش کا خانہ" نظر آتا ہے۔ جس موضوع پر مضمون بنانا چاہیں وہ تلاش کے خانے میں لکھیں، اور تلاش پر کلک کریں۔

آپ کے موضوع سے ملتے جلتے صفحے نظر آئیں گے۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ آپ کے مطلوبہ موضوع پر پہلے سے مضمون موجود نہیں، آپ نیا صفحہ بنا سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایک موضوع پر ایک سے زیادہ مضمون بنانے کی اجازت نہیں۔ نیا صفحہ بنانے کے لیے، تلاش کے نتائج میں آپ کی تلاش کندہ عبارت سرخ رنگ میں لکھی نظر آئے گی۔ اس پر کلک کریں، تو تدوین کا صفحہ کھل جائے گا، جہاں آپ نیا مضمون لکھ سکتے ہیں۔ یا آپ نیچے دیا خانہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔


  • لکھنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ جس عنوان پر آپ لکھ رہے ہیں اس پر یا اس سے مماثل عناوین پر دائرۃ المعارف میں کوئی مضمون نہ ہو۔ اس کے لیے آپ تلاش کے خانہ میں عنوان اور اس کے مترادفات لکھ کر تلاش کر لیں۔
  • سب سے بہتر یہ ہوگا کہ آپ مضمون تحریر کرنے کے لیے یہاں تشریف لے جائیں، انتہائی آسانی سے آپ مضمون تحریر کرلیں گے اور کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔


-- آپ کی مدد کےلیے ہمہ وقت حاضر
محمد شعیب 14:56، 1 اپریل 2020ء (م ع و)

RESHI ALAMBRDAR SYED Gulzar sahb[ترمیم]

اعجاز احمد وانی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 16:07، 12 فروری 2024ء (م ع و)

نظریہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کا تاریخی،علمی اور تقابلی جائزہ[ترمیم]

مسلہ کا بیان (تعارف): وحدت الوجود اور وحدت الشہود اہل تصوف کے درمیان فلسفیانہ اور نظریاتی مسئلہ ہے۔جس کی بنا پر اہل تصوف دو گروہوں میں منقسم ہیں۔ اس سلسلے میں بعض صوفیاء نے ایک دوسرے کا رد کیا ہے، کئی نے دونوں نظریات میں تطبیق کی کوشش کی ہے اور کچھ نے قرآن اور سنت کی سادہ تعلیمات پر زور دے کر ان فلسفیانہ نظریات کو غیر ضروری قرار دیا ہے اور بعض اہل علم نے تو اسے صریح کفر یا دین کے مقابلے میں علیحدہ دین قرار دیا ہے۔  اس تحقیق میں دونوں نظریات کا عام فہم مفہوم سمجھانے ،دونوں نظریات میں بنیادی فرق اور یکسانیت بیان کرنے اورصوفیا ، علمائے کرام اور فلاسفہ کے نظریات کا علمی جائزہ لیا جائے گا  اور اسے قرآن و سنت کے میزان پر بھی تولنے کی کوشش کی جائے گی ۔

مقالے کے اغراض مقاصد:        مقالے کے اغراض و مقاصددرجہ ذیل ہیں۔

(۱)فلسفہ وحدت الوجوداور فلسفہ وحدت الشہود کوآسان زبان میں بیان کرنا۔

(۲)دونوں فلسفوں کے درمیان حقیقی فرق کی وضاحت کرنا۔

(۳)فلسفہ و حدت الوجود اور وحدت الشہود کے اثرات بیان کرنا۔

(۴)دونوں مکتبہ ہائے فکر کا علمی جائزہ لینا۔

(۵)قرآن وسنت کا  پیش کردہ توحید کے نظریے کا اس سے تقابلی جائزہ لینا۔

مطالعے کی اہمیت:          تصوف زمانہ قدیم سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ پھر اس میں فلسفہ وحدت الوجود اور وحدت الشہوددو اہم نظریئے ہیں، یہ اللہ کی ذات اور مخلوق سے تعلق کے حوالے سے بحث کرتے ہیں جو انسان کیلئے انفرادی اور اجتماعی حوالوں سے اہم موضوع ہے یہی وجہ ہے کہ یہ قرآن و سنت کا بھی مرکزی مضمون ہے ۔لیکن تصوف اور فلسفہ کی ایک تو زبان مشکل ہے دوسرا یہ مسئلہ بے حد پیچیدہ بھی ہے ۔ تیسرا اس حوالے سے جدیدآسان زبان اور انداز میں تحریریں عام طور پر موجود نہیں ہیں۔ اس لئے عام لوگ تو کیا خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس موضوع سے واقفیت نہیں رکھتے یا اسے خشک اور گنجلک تصور کرتے ہیں ۔اس لئے اس مقالے میں اس موضوع کے اہم نکات اور مبحث علمی مگر آسان زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی جو عام لوگوں اور اہل علم کیلئے مزید تحقیق کا سبب بنے گا۔

ادب کا مطالعہ:        تصوف کے حوالے سے ان کے بانیوں کے امہات الکتب موجود ہیں۔ منصورحلاج کی کتاب  ـ’’الطوسین‘‘ جس میں ازل،خدا،تخلیق،شجرہ،زیتوں،خدا کے نور جیسے موضوعات بیان کئے ہیں ،موجودہے۔ ان کی دیگر کتابوں کے علاوہ امام غزالی  (۴۵۰ھ تا۵۰۵ھ)نے احیاء العلوم میں تصوف کے حوالے سے کافی بحث کی ہے ۔ وحدت الوجودی نظریے کے بانی ابن عربی کی فصول الحکم اور فتوحات مکیہ اہم ترین تصانیف ہیں۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ کی منازل السائرینہے جو علم تصوف کا اہم ترین ماخذ مانا جاتا ہے۔ شیخ احمد سرہندی(۹۷۱ھ تا ۱۰۳۴ھ) جو وحدت الشہود کا بانی سمجھا جاتا ہے کے’’ مکتوبات‘‘، شاہ اسماعیل کی(۱۱۹۳ھ تا ۱۲۴۶ھ) عبقات جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی تطبیق پر لکھی گئی ہے ۔شہاب الدین سہروردی (۵۳۹ھ تا ۶۳۲ھ) جو سروردیہ سلسلہ کے بانی ہیں کا’’ عوارف المعارف‘‘ ،عبدالکریم جلیلی (وفات ۸۳۲ھ )کی’’ الانسان الکامل فی معرفۃ الأواخرو الأوائل‘‘ ، مولانا عبدالعلی کا رسالہ وحدت الوجود ،زید الحسن فاروقی کا رسالہ وحدت الوجود ،شیخ عبدالغنی کی کتاب ’’الصباح المقصود،مکتوبات مرزا مظہر جانِ جانان ،شاہ غلام علی دہلوی کی مقامات،رود کوثراز شیخ محمد اکرم ،سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام مصطفے خان کی لوائح خانقاہ مظہریہ ملا تیمور کا قلمی نسخہ’’ شریعت و طریقت‘‘ اور مکتوبات لعل بدخشان جیسے اہم بنیادی ماخذ کی کتب اور نسخہ جات موجود ہیں۔ جدید دور میں بھی تنقیدی نقطہ نظر سے لکھی گئی کتب موجود ہیں ۔تاہم  وحدت الوجود اور وحدت الشہود نظریات پرآسان زبان میں، دونوں کے تقابلہ ،ایک دوسرے پر اثرات اور علمی جائزے کے حوالے سے اردو زبان میں تحقیق کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔یہ آرٹیکل اس تشنگی کودورکرنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

کائنات خدا ہے اس طرح انسان بھی خدا ہے یا خدا  بن سکتا ہے یا خداانسان میں حلول کر جاتاہے۔

یہ فلسفہ ابن عربی کا تخلیق کردہ نہیں ہے،اسلام سے بھی پہلے دیگر مذاہب میں خصوصاً ہندو مت میں چلا آرہا ہے۔(۸)بلکہ کئی مسلمان صوفیا ء ابن عربی سے پہلے اللہ کی ذات با الفاظ دیگر مسئلہ توحید کے حوالے سے اس قسم کے نظریات رکھتے تھے۔ ایران کے عبیداللہ بن احمد بن ابی ظاہر بن حسین بن منصور حلاج (۸۵۸ء تا۹۲۲ء) نے بغداد و بصرہ  میں خواجہ جنید سے چھ سا ل فیض حاصل کیا تھااور حج بیت اللہ کے بعد اسی نظریئے کے مطابق ’’اناالحق‘‘ کے نعرے بازاروں میں لگایا کرتے تھے ۔جس کا مطلب خود خدا ہو جانا اور خدا سب کچھ ہونا تھا چنانچہ ان کا کہنا تھا کہ

’’ اللہ زمین پر انسانی صورت بدل کر نازل ہوا، میرے اور میرے خدا کے درمیان میری اناحائل ہے،۔۔۔۔۔  عشق میں ایک ایسا مقام بھی آجاتا ہے کہ دل بیت اللہ بن جاتا ہے اور فرض حج ساقط ہوجاتا ہے ۔۔۔۔ اور انسان تزکیہ روح کے بعد حدود شریعت سے ابھر کر ذات خدا وندی میں جذب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔تمام مذاہب کی حقیقت ایک ہے فرق صرف فروع میں ہے‘‘  (۹)

اس کا مطلب کیایہ ہے کہ خدا بن جانا ایک اکتسابی عمل ہے ؟ دوسرا یہ کہ یہ کفرو شرک ،ہندو مسلمان ،مسلم و غیر مسلم محض فروعی مسئلہ ہے؟ظاہرہے کہ نہیں۔

منصور حلاج اپنے بیٹے کو خط میں لکھتے ہیں کہ:

’’ اے بیٹے !اللہ تجھ پر کفر کی حقیقت کھولے اور تجھ سے ظاہری شریعت کو چھپائے ،شریعت کا ظاہر شرک خفی ہے اور کفر کا باطن معرفت جلی،خدا نے کہاکہ وہ مخلوق نہیں اور مخلوق نے کہا کہ وہ خدا نہیں، دونوں غلط، خدا کے اثبات و نفی کے قائل بھی غلط،اللہ کا فریب نہ کھانا اور نہ اس سے مایوس ہونا، خدا سے ہر گز محبت نہ کرو،اور نہ اس سے عشق کے سوا کوئی اور مقام قبول کرو، خدا کو نہ مانو انکار کرو اور عقیدہ توحید سے دور رہو۔‘‘(۱۰)

یہ اس حلاج کا فلسفہ ہے جس کا چرچا نثر و نظم دونوں میں کیاجاتا ہے علامہ اقبال جیسی شخصیت’’ انا الحق‘‘ کا مداح ہے۔ بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہی فلسفہ ابن عربی سے پہلے بھی موجود تھا ،یہ لا موجودہ الااللہ  یا  لا موجود ہ الا ہُ  نعرہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ موجود صرف اللہ ہوا کرتا ہے ۔شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبداللہ جیسے عالم کا کہنا تھا کہ یہ حادث کی نفی اور قدیم کا اثبات ہے(۱۱) مشہور فلسفی ،صوفی اور امام محمدالغزالی ابن عربی سے بہت پہلے اس بات کے قائل تھے ، جیسا کہ وہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں۔

روحانی ترقی کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

’’دوسری عرض یہ ہے کہ اس مقام کے ملاحظہ کے وقت اور بہت سے مقام ایک دوسرے کے اوپر ظاہر ہوئے۔ نیاز اور عاجزی سے توجہ کرنے کے بعد اس پہلے مقام سے اوپر کے مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کے حضرت ذی النورین کا مقام اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے۔ اور یہ مقام بھی تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور ایسے ہی اس مقام سے اوپر کے دو مقام بھی جن کا اب ذکر ہوتا ہے ، تکمیل و ارشاد کے مقام ہیں اور اس مقام سے اوپر ایک اور مقام نظر آیا جب اس مقام میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت فاروق اعظمؓ کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کا بھی وہاں عبورواقع ہوا ہے اور اس مقام سے اوپر حضرت صدیق اکبرؓکا مقام ظاہر ہوا۔ بندہ اس مقام پر پہنچا اور اپنے مشائخ میں حضرت خواجہ نقشبندی قدّہ وسرہ۔کو ہر مقام میں اپنے ہمراہ پاتا تھااور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے سوائے عبور اور مقام اور مرور اور اثبات کے کچھ فرق نہیں ہے اور اس مقام کے اوپر سوائے حضرت محمد ﷺ کے اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتااور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مقابل ایک اور نہایت عمدہ نورانی مقام کہ اس جیسا کبھی نظر میں نہ آیا تھا ظاہر ہوا اور وہ مقام اس مقام سے تھوڑا سا بلند تھا جس طرح کہ صفہ کو سطح زمین سے ذرا بلند بناتے تھے اور معلوم ہوا کہ وہ مقام محبوبیت کا مقام ہے اور وہ مقام رنگین اور منقش تھا اپنے آپ کو بھی اس مقام کہ عکس سے رنگین معلوم کیا۔‘‘(۱۸)

اس طرح کے خیالات سے بڑھ کر بعد میں مریدوں نے دعوے کیے اور’’حلول‘‘ اور’’ صلح کل‘‘ کے مترادف عقائد اپنائے یہی وجہ ہے کہ علما ء نے کہا کہ حضرت مجدد کی وفات پر کچھ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ان کے حلقے کے لوگوں نے ان کو قیوم اول اور ان کے خلفاء کو قیوم ثانی کا خطاب عطا کر دیا۔(۱۹)یہ وہی باتیں تھیں جس پر احمد شاہ تیمور باجوڑی جیسے صوفی نے بھی گرفت کی۔(۲۰)ـ

وحدت الشہود نظریے کے اثراتـ: جیسا کے ظاہر ہوا ہے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے دونوں فلسفے ذات باری تعالیٰ اور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں ۔ تصوف کی زبان میں اسے توحید عینی اور توحید ظلی بھی کہا جاتا ہے

۔(۲۱)

مجدد الف ثانی وحدت الوجود کے فلسفے سے بدعات اورغیر اسلامی افکار دور کرنا چاہتے تھے شائد کچھ حد تک وہ کامیاب ہوا ہو گا لیکن ایک تو حقیقتاً دونوں نظریات میں جوہری فرق نہیں تھا ۔وجود باری تعالی کے حوالے سے دونوں کے نظریات یکساں تھے مثلاً ان کا یہ کہنا تھا کہ:

’’ ممکن کیلئے وجود ثابت کرنا اور خیر و کمال کو اس سے متعلق ٹھہرانا درحقیقت اُسے ذات باری تعالی کے مِلک اور مُلک میں شریک کرنا ہے۔‘‘

بھی کہا جاتا ہے ۔ تصوف کی ایک اہم کتاب ’’تذکرہ غوثیہ‘ ـ‘  میں دونوں کا فرق اس طرح بیان کیا ہے ۔

وجود یعنی ہستی حقیقی واحد ہے لیکن ایک ظاہر وجود اور ایک باطن ۔ باطن وجود ایک نور ہے جو جملہ عالم کے لئے بمنزلہ جان کے ہے۔اسی نور باطن کا پرتو ظاہر وجود ہے، جو ممکنات کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ ہر اسم و صفت و فعل کہ عالم ظاہر میں ہے ، ان سب کی اصل وہی وصف باطن ہے اور حقیقت اس کثرت کی وہی وحدت صرف ہے۔ جسے امواج کی حقیقت عین ذات دریا ہے۔( ۳۲)  

اس فلسفے کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی ذات کائنات ہے اس سے زیادہ نہ کم ۔ اس کے مقابلے میں مجدد الف ثانی نے جو نظریہ وحدت الشہود پیش کیا اُسے توحید ظلی بھی کہا جاتاہے۔ اس کا مطلب تصوف کی مشہور کتاب’’ غوثیہ‘‘ میں کچھ یوں ہے۔

’’وجود کائنات اور ظہور آثار و صفات مختلفہ واحد مطلق کی ذات و صفات کا ظل و عکس ہے ، جو عدم میں منعکس ہو رہاہے اور یہ ظل عین صاحب ظل نہیں بلکہ محض ایک مثال ہے‘‘ ( ۳۳)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالی کا سایہ ہے۔

احمد شاہ تیمور باجوڑی کا موقف :        احمد شاہ تیمور باجوڑی کاموقف یہ تھا کہ دونو ں مکتبہ یا اس میں تطبیق لانے والوں کا اس مسئلہ پر بحث کرنا ،دلائل دینا نہ مفید ہے، نہ قابل فہم ،اور نہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں قرآن مجید میں جو ہدایات ، رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے، بیان کی ہیں ۔ اللہ تعالی کے بارے میں اس طرح لڑنے جھگڑنے، بحث کرنے پر قرآن مجید نے پابندی لگائی ہے اور اس چیز کو کافروں کا شیوہ قرار دیا ہے۔( ۳۴)  اللہ کا فرمان ہے کہ ہدایات اور دلیل کے بغیر اللہ کے بارے میں بحث کرنا ، جھگڑنا گمراہ لوگوں کا کام ہے آخرت میں اُنہیں سخت عذاب چھکایا جائے گا۔(۳۵) جیسا کہ اللہ تعالی نے خود فرمایا ہے کہ بعض گمراہ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ کے وجود اور صفات کے حوالے سے بحث مناظرے (جھگڑے ) روشن کتاب (قرآن ) کی دلیل کے بغیر کرتے  ہیں ۔( ۳۶)

لہٰذا اگر اللہ کی ذات،صفات ، توحید اور کائنات اور اللہ کے باہم رشتہ و تعلق کے حوالے سے جو بھی بات کرنی ہے، نظریہ قائم کرنا ہے، عمل کرنا ہے تو سب کی دلیل و ثبوت اسی اللہ کی کتاب قرآن مجید سے ہونی لازمی ہے۔ قرآن و سنت نے انتہائی اسان زبان ، تفصیل اور کسی بھی شک و شبہ اور تنازعے سے پاک توحید ، اللہ اور مخلوق کے باہم تعلق و حیثیت بیان کیا ہے۔ مزید کسی الہام ، ریاضت ، فلسفے اور نظریے گھڑنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ۔قرآن مجید نے ۲۶۹۸ مرتبہ اللہ کا نام یعنی اسم ذات بیان کیا ہے۔ یہ نام خود اللہ کی ذات حیثیت اور صفات کی ایک مکمل دلیل ہے ، پہچان ہے اور ثبوت ہے ۔ اس کی نہ جمع ہے ، نہ ضد ، نہ مذکر اور نہ مونث ۔ اللہ کے پاک نام کا تجزیہ کریں تب بھی اللہ کی ذات ہوتاہے ، مثلاً  ا (الف ) ہٹائیں  تو ’للہ‘ رہ جاتا ہے ، ل (لام ) بھی ہٹائیں توــ’ لہ‘ رہ جاتا ہے اور اگر یہ دوسرا  ل (لام) بھی ہٹائیں تو ’ہ‘  بن جاتاہے ۔ ان تمام کا مطلب پھر بھی ذات باری تعالی ہے۔ انگریزی زبانوں میں بھی ادبی لحاظ سے اس نام کہ حیثیت علیحدہ اور منفرد ہے ، مثلاً انگریزی زبان میں اللہ کے لئے God    اور دیوتا کے لیے god استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی خود اپنی ذات ،صفات اور کائنات سے تعلق کے حوالے سے سورۃ الحشر میں فرماتا ہے۔  

  کرتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ ایک تو یہ نظریات نہ ضروریات دین سے ہے نہ اس کا فائدہ ہے ،نہ اصلاح کا کوئی ذریعہ ہے بلکہ الٹا پیچیدگی، تنازعات اور فرقہ بازی کا ذریعہ ہے۔ دوسرے یہ کہ خدا جیسی ہستی کے بارے میں مخلوقات کا اس طرح نظریات گھڑنا کسی کے لئے بھی اور کسی بھی صورت میں جائز نہیں اس کے لئے شرع سے دلائل لانا محض تکلف ہے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ : اللہ کی ذات میں جھگڑنے اور دلیل بازی نہ کرو اللہ کی ذات میں فکر نہ کرو اللہ کی کائنات ،نعمتوں اور صفات پر ہدایت کے لئے فکر کرو۔ اس سلسلے میں خود اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات اور تشریح کافی ہے۔(۴۲) وہ اللہ کی ذات اور مخلوق کی حیثیت قرآن کی زبان میں یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ ذات ،صفات اور افعال میں یکتا ہے اس کا کوئی ثانی اور مثال نہیں۔(۴۳)وہ تمام کائنات کا خالق ہے۔(۴۴) وہ مالک ہے ۔حاکم ہے اور کوئی بھی اس میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے ،نہ ہو سکتا ہے ،نہ ہو گا۔(۴۵)، نہ کوئی اس کے برابر اور ہمسر ۔(۴۶)

            ملاتیم رہا اللہ اور کائنات کے تعلق کے لئے سورہ روم کی آیت پیش کرتے ہیں کہ زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہے اس کی مخلوق ہیں ، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔(۴۷)  نتیجہ یہ کہ :

۱۔        وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات خدا ہے اور خدا کائنات ہے ۔

۲۔        وحدت الشہود فلسفے کا مفہوم یہ ہے کہ خدا کائنات کا پر تُو ہے یعنی اللہ کا عکس اور ظل ہے۔

۳۔       یہ دونوں نظریے ذات باری تعا لیٰ ا ور مخلوقات کے تعلقات کو بیان کرتے ہیں اور تصوف کی زبان میں ا سے توحید عینی اور توحید ظلی کہا جاتا ہے ۔

۴۔       وحدت الوجود فلسفے کا بانی ابن عربی مشہور ہے تاہم ان سے پہلے غیر مسلم اور مسلمان اہل صوفیاء بھی اس کے قائل رہے ہیں۔

۵۔       مجدد الف ثانی نے وحدت الوجود کی بدعات دور کرنے کیلئے وحدت الشہود کا نظریہ پیش کیا۔ لیکن اصلاح کے بجائے دو مخالف مکتبہ فکر ابھرکر سامنے آئے جو فرقہ بازی کے ساتھ ساتھ مسئلے کی پیچیدگی کا سبب بھی بنے۔

۶۔        علمائے دین اور صوفیاء میں سے بعض حضرات ان نظریات کو شریعت کے مطابق نہیں سمجھتے ۔

۷۔       قرآن وسنت نے توحید کا مسئلہ سادہ اور آسان پیش کیا ہے جس کو فلسفہ یا کسی اور مشکل زبان میں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۸۔       قرآن مجید کے مطابق اللہ ذات و صفات میں یکتا ہے ۔وہ خالق ، مالک ،حاکم اور معبود ہے، جبکہ کائنات مخلوق ،محکوم ،مملوک،عابد اور شریعت کی تابعداری کرنے پر مکلف ہے۔

۹۔        تصوف انفرادی ،تزکیہ نفس، کا سبب ہو سکتا ہے ۔

۱۰۔       لیکن کوئی چیز نہ شریعت کی چوکھٹ سے باہر ہونی چائیے نہ دین دنیا کی کامیابی بغیر شریعت پر عمل کرنے کے ممکن ہے۔ اعجاز احمد وانی (تبادلۂ خیالشراکتیں) 12:42، 14 فروری 2024ء (م ع و)