مندرجات کا رخ کریں

تبادلۂ خیال:متناسب نمائندگی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سن 1990ء کے عام انتخابات ہوئے، میاں نوازشریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد( آئی جے آئی) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ آئی جے آئی کو 79 لاکھ 8 ہزار 513 ووٹ ملے جبکہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) کے حصے میں 77 لاکھ 95 ہزار 218 ووٹ آئے۔ حیران کن امر یہ تھا کہ دونوں اتحادوں کے درمیان میں فرق محض ایک لاکھ 13 ہزار 295 ووٹوں کا تھا لیکن نشستوں کا فرق دگنا سے بھی زیادہ تھا۔ آئی جے آئی کی سیٹیں 111 تھیں جبکہ پی ڈی اے کو محض 44 نشستیں ملیں۔

اس قدر بڑے فرق کا سبب کیاتھا؟ دھاندلی کی آوازیں ہمارے ہاں ہرالیکشن کے بعد سنائی دیتی رہی ہیں لیکن یہاں سبب دھاندلی نہیں تھا بلکہ ہمارے ہاں رائج انتخابی نظام تھا، جسے تناسبی اکثریت کا نظام (Plurality- majority voting) کہاجاتاہے۔ آپ نے سناہوگا کہ ہمارے ہاں سیاست میں کامیابی کا بنیادی اصول ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ ہوتاہے، اگرہمارے ہاں مروجہ انتخابی نظام کا جائزہ لیاجائے تو اس میں بھی کامیابی کی بنیاد یہی اصول ہے۔ پاکستان میں مروجہ انتخابی نظام کے نقائص سے بہت سے اصحابِ دانش آگاہ ہیں، تاہم ایک نہایت کم پڑھے لکھے فرد کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ایک مثال کا سہارا لیناپڑے گا۔ فرض کریں کہ آپ کے انتخابی حلقے میں چارامیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک گرین پارٹی کا امیدوا رہے، دوسرا ریڈ پارٹی کا، تیسرا ییلو پارٹی کا اور چوتھا بلیو پارٹی کا۔ اگر حلقہ میں کل ووٹ 100ہیں، گرین پارٹی کے امیدوار کو ملے20ووٹ، ریڈ پارٹی والے کو 10ووٹ، ییلو پارٹی والے کو 30ووٹ جبکہ بلیوپارٹی کے امیدوار کے حصے میں آئے40ووٹ۔ موجودہ انتخابی نظام کے تحت بلیو پارٹی کا امیدوار جیت جائے گا کیونکہ اس کے ووٹ باقی امیدواروں کی نسبت زیادہ ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 40ووٹ لینے والے کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی، حلقے میں اسے ناپسند کرنے والے لوگوں کی تعداد 60 ہے۔ سیدھا سادھا ایک مطلب یہ ہے کہ کامیاب فرد کو اپنے حلقے کے اکثرلوگوں کی حمایت حاصل نہیں ہے، اسے کامیابی صرف اس صورت میں ملی ہے کہ اس نے اپنے مخالفین کو تقسیم کر دیاہے یا پھر وہ تقسیم ہو گئے ہیں۔ اب انتخابات2013ء ہی کا جائزہ لے لیاجائے، اس میں مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 48لاکھ 74ہزار ایک سو چار ووٹ حاصل کرکے قومی اسمبلی کی 126 نشستیں حاصل کیں جبکہ اس کی نسبت تقریباً آدھے ووٹ لینے والی تحریک انصاف کو محض28نشستیں ملیں۔ اگرعوامی حمایت کی بنا پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف کو70 کے قریب نشستیں ملنی چاہیں تھیں۔ مزید حیران کن امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی نسبت کم ووٹ (69 لاکھ 11 ہزار 218) حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف سے زیادہ سیٹیں(32)ملیں۔ انہی انتخابات میں متحدہ دینی محاذ نے ساڑھے تین لاکھ ووٹ حاصل کیے لیکن اس کے حصے میں ایک بھی نشست نہ آئی۔ دوسری جانب آفتاب احمد شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی کے مجموعی ووٹ 47ہزارتھے لیکن اسے قومی اسمبلی میں ایک نشست مل گئی۔ اس نظام کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ نظام حقیقتاًًً ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ پر ایمان رکھنے اور عمل کرنے والوں کے لیے ہی مفید ہے۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی زندگی اسی نظام میں مضمر ہے۔ مخالفین نہ صرف اسے عوام کی رائے کا مظہر نہیں مانتے بلکہ اسے غیر اسلامی بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی اس نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں میں یہ موقف اختیارکیاگیاتھا کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتاہے، مخالف امیدوار کی کردار کشی کرتا ہے۔ کامیابی کے لیے لالچ، دھونس، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کاسہارا لیاجاتاہے۔ امیدوار کی بینروں، پوسٹروں اور پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں اور ٹرکوں پر سوار کرائے کے رضاکاروں کے جلوس سڑکوں پر محلے محلے اور گاؤں گاؤں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ امیدوار کی اپنی خواہش اور اس کے بھاری خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے کے لیے علاقائی، فرقہ وارانہ، قبائلی اور اس طرح کے دوسرے تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے، بوگس اور جعلی ووٹ بھگتانا معمول کی بات ہے۔ بالآخر جو سب سے اونچے داؤ لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ یقینا موجودہ انتخابی نظام میں ایک امیدوار قلیل حامیوں کے ساتھ جیت جاتاہے۔ انتخابات 2013ء میں قومی اسمبلی کے 138ارکان ایسے ہیں جنھوں نے اپنے حلقہ میں پچاس فیصد سے کم ووٹ حاصل کیے لیکن انھیں کامیابی نصیب ہوئی۔ موجودہ پارلیمان میں ایسے ارکان بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے حلقوں میں کل رجسٹرڈ شدہ ووٹوں کا صرف 20سے30فیصد ووٹ حاصل کرپائے۔ ان انتخابات میں وہی تماشے دیکھنے کو ملے ہیں جو تناسبی اکثریت کے نظام کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بعض ایسے حلقے ہیں جہاں ٹرن آؤٹ 80فیصد سے زیادہ رہا لیکن ایسے بھی حلقے ہیں جہاں 20سے30فیصد رہا۔ یہ ایسے انتخابات تھے جس میں حصہ لینے والے امیدواروں نے آئین کی ان دفعات کا کھلم کھلامذاق اڑایا جنھوں نے امیدواروں کو چھانٹنے کے لیے چھلنی کا کام دیناتھا۔ کہاگیا کہ اگران دفعات کو خاطر میں لایاگیاتو کوئی بھی پارلیمان میں نہیں پہنچ سکے گا۔