"عثمان بن عفان" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
2 مآخذ کو بحال کرکے 0 پر مردہ ربط کا ٹیگ لگایا گیا) #IABot (v2.0.7
سطر 30: سطر 30:
عثمان بن عفان کی پیدائش سنہ [[576ء]] میں [[عام الفیل]] کے چھ سال بعد<ref name="كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»">[http://www.al-eman.com/الكتب/عثمان%20بن%20عفان%20**/الفصل%20الأول:%20حياة%20عثمان%20/i123&d85635&c&p1#s2 نداء الإيمان:] كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»، من تأليف: محمد رضا الأديب</ref> [[طائف]] میں ہوئی،<ref name="كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»"/> تاہم ایک قول [[مکہ]] میں پیدائش کا بھی ہے۔<ref name="صحابة رسول اللہ"/> یہ [[قریش]] کی ایک شاخ [[بنو امیہ|بنو امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف]] میں پیدا ہوئے، یہ قبیلہ سرداران قریش میں سے تھا۔ ان کے والد عفان [[ابو سفیان بن حرب]] کے چچا زاد بھائی تھے۔ عثمان غنی کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام آمنہ بنت عفان تھا۔ عفان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے [[عقبہ بن ابی معیط]] سے نکاح کر لیا، جس سے تین بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں، [[ولید بن عقبہ]]، [[خالد بن عقبہ بن ابی معیط|خالد بن عقبہ]]، [[عمارۃ بن عقبہ]] اور [[ام کلثوم بنت عقبہ]]، یہ سب عثمان غنی کے ماں شریک بھائی بہن تھے۔<ref name="كتاب الطبقات الكبرى">[http://www.al-eman.com/الكتب/الطبقات%20الكبرى%20**/أروى%20بنت%20كريز%20/i54&d58549&c&p1 نداء الإيمان] الطبقات الکبری، ذكر ضرب النساء - أروى بنت كريز</ref> عثمان غنی کی والد [[اروی بنت کریز]] نے اسلام قبول کیا تھا اور انہی کے دور خلافت میں وفات پائیں،<ref name="الخلافة الراشدة والدولة الأموية، د۔ يحيى اليحيى، ص388">الخلافة الراشدة والدولة الأموية، از ڈاکٹر یحیی الیحیی، ص388</ref> جبکہ ان کے والد عفان کا انتقال [[زمانہ جاہلیت]] ہی میں ہو گیا تھا۔
عثمان بن عفان کی پیدائش سنہ [[576ء]] میں [[عام الفیل]] کے چھ سال بعد<ref name="كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»">[http://www.al-eman.com/الكتب/عثمان%20بن%20عفان%20**/الفصل%20الأول:%20حياة%20عثمان%20/i123&d85635&c&p1#s2 نداء الإيمان:] كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»، من تأليف: محمد رضا الأديب</ref> [[طائف]] میں ہوئی،<ref name="كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»"/> تاہم ایک قول [[مکہ]] میں پیدائش کا بھی ہے۔<ref name="صحابة رسول اللہ"/> یہ [[قریش]] کی ایک شاخ [[بنو امیہ|بنو امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف]] میں پیدا ہوئے، یہ قبیلہ سرداران قریش میں سے تھا۔ ان کے والد عفان [[ابو سفیان بن حرب]] کے چچا زاد بھائی تھے۔ عثمان غنی کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام آمنہ بنت عفان تھا۔ عفان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے [[عقبہ بن ابی معیط]] سے نکاح کر لیا، جس سے تین بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں، [[ولید بن عقبہ]]، [[خالد بن عقبہ بن ابی معیط|خالد بن عقبہ]]، [[عمارۃ بن عقبہ]] اور [[ام کلثوم بنت عقبہ]]، یہ سب عثمان غنی کے ماں شریک بھائی بہن تھے۔<ref name="كتاب الطبقات الكبرى">[http://www.al-eman.com/الكتب/الطبقات%20الكبرى%20**/أروى%20بنت%20كريز%20/i54&d58549&c&p1 نداء الإيمان] الطبقات الکبری، ذكر ضرب النساء - أروى بنت كريز</ref> عثمان غنی کی والد [[اروی بنت کریز]] نے اسلام قبول کیا تھا اور انہی کے دور خلافت میں وفات پائیں،<ref name="الخلافة الراشدة والدولة الأموية، د۔ يحيى اليحيى، ص388">الخلافة الراشدة والدولة الأموية، از ڈاکٹر یحیی الیحیی، ص388</ref> جبکہ ان کے والد عفان کا انتقال [[زمانہ جاہلیت]] ہی میں ہو گیا تھا۔


عثمان غنی [[زمانہ جاہلیت]] ہی سے انتہائی شریف الطبع،<ref name="صحابة رسول اللہ">[http://www.sahaba.rasoolona.com/Sahaby/9372/مختصر/عثمان-بن-عفان-الأموي صحابة رسول اللہ:] عثمان بن عفان اموی</ref> ذہین اور صائب الرائے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ [[الکحلی مشروب|شراب]] پی۔<ref name="مشروع سلسلة العلامتين الوقفي">[http://www.3llamteen.com/2012/11/14/العدد-47-عثمان-بن-عفان/ مشروع سلسلة العلامتين الوقفي:] عثمان بن عفان</ref> نیز علوم عرب مثلاً [[علم انساب|انساب]]، [[امثال]] اور جنگوں کے بڑے عالم تھے، [[سرزمین شام|شام]] اور [[مملکت اکسوم|حبشہ]] کا سفر کیا تو وہاں غیر عرب قوموں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے ان اقوام کے حالات، طور طریقے اور رسم و رواج سے انھیں واقفیت حاصل ہوئی، یہ خصوصیت ان کی قوم میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھی۔<ref name="عبقرية عثمان للعقاد، ص72">عبقرية عثمان از عقاد، ص: 72</ref> عثمان غنی کا پیشہ تجارت تھا جو ان کے والد سے انھیں وراثت میں ملی تھی، اس پیشہ سے انھوں نے خوب دولت حاصل کی اور بنو امیہ کی اہم شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ عثمان غنی انتہائی سخی اور کریم النفس تھے، زمانہ جاہلیت میں ان کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب [[رقیہ بنت محمد]] سے ان کے گھر میں [[عبد اللہ بن عثمان بن عفان|عبد اللہ]] کی ولادت ہوئی تو مسلمان ان کو ابو عبد اللہ کی کنیت سے پکارنے لگے۔<ref name="التمهيد والبيان في مقتل الشهيد عثمان، ص19">التمهيد والبيان في مقتل الشهيد عثمان، ص: 19</ref>
عثمان غنی [[زمانہ جاہلیت]] ہی سے انتہائی شریف الطبع،<ref name="صحابة رسول اللہ">[http://www.sahaba.rasoolona.com/Sahaby/9372/مختصر/عثمان-بن-عفان-الأموي صحابة رسول اللہ:] عثمان بن عفان اموی</ref> ذہین اور صائب الرائے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ [[الکحلی مشروب|شراب]] پی۔<ref name="مشروع سلسلة العلامتين الوقفي">[http://www.3llamteen.com/2012/11/14/العدد-47-عثمان-بن-عفان/ مشروع سلسلة العلامتين الوقفي:] {{wayback|url=http://www.3llamteen.com/2012/11/14/%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%AF%D8%AF-47-%D8%B9%D8%AB%D9%85%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%86-%D8%B9%D9%81%D8%A7%D9%86/ |date=20160316212152 }} عثمان بن عفان</ref> نیز علوم عرب مثلاً [[علم انساب|انساب]]، [[امثال]] اور جنگوں کے بڑے عالم تھے، [[سرزمین شام|شام]] اور [[مملکت اکسوم|حبشہ]] کا سفر کیا تو وہاں غیر عرب قوموں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے ان اقوام کے حالات، طور طریقے اور رسم و رواج سے انھیں واقفیت حاصل ہوئی، یہ خصوصیت ان کی قوم میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھی۔<ref name="عبقرية عثمان للعقاد، ص72">عبقرية عثمان از عقاد، ص: 72</ref> عثمان غنی کا پیشہ تجارت تھا جو ان کے والد سے انھیں وراثت میں ملی تھی، اس پیشہ سے انھوں نے خوب دولت حاصل کی اور بنو امیہ کی اہم شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ عثمان غنی انتہائی سخی اور کریم النفس تھے، زمانہ جاہلیت میں ان کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب [[رقیہ بنت محمد]] سے ان کے گھر میں [[عبد اللہ بن عثمان بن عفان|عبد اللہ]] کی ولادت ہوئی تو مسلمان ان کو ابو عبد اللہ کی کنیت سے پکارنے لگے۔<ref name="التمهيد والبيان في مقتل الشهيد عثمان، ص19">التمهيد والبيان في مقتل الشهيد عثمان، ص: 19</ref>


== اوصاف ==
== اوصاف ==
سطر 93: سطر 93:
نظریات اہل تشیع:
نظریات اہل تشیع:
* [http://al-islam.org/restatement/58.htm عثمان کا انتخاب بطور خلیفہ]
* [http://al-islam.org/restatement/58.htm عثمان کا انتخاب بطور خلیفہ]
* [http://www.holynajaf.net/eng/html/nahjulbalaga/030.htm عثمان بن عفان کا قتل]
* [http://www.holynajaf.net/eng/html/nahjulbalaga/030.htm عثمان بن عفان کا قتل] {{wayback|url=http://www.holynajaf.net/eng/html/nahjulbalaga/030.htm |date=20050411185921 }}
* [http://www.basma.us/site/true_islam/quran/article.quran.graces_of_waki%27aah.php عثمان اور عبد اللہ بن مسعود]
* [http://www.basma.us/site/true_islam/quran/article.quran.graces_of_waki%27aah.php عثمان اور عبد اللہ بن مسعود]



نسخہ بمطابق 15:42، 30 دسمبر 2020ء

{{{نام}}}
ولادت 576ء تقريبًا، سنہ 47 ق ھ[1]
طائف[1] أو مكہ[2]، شبہ جزيرہ عرب
وفات 12 ذوالحجہ 35ھ مطابق 656ء
مدينہ منورہ، حجاز، شبہ جزيرہ عرب
محترم در اسلام: اہل سنت و جماعت، اباضیہ، الدروز، زیدیہ شیعہ
مزار جنت البقیع
نسب والد: عفان بن ابی العاص
والدہ: اروی بنت كريز
أشقاؤہ لأبيہ: آمنہ بنت عفان
أشقاؤہ لأمہ: وليد بن عقبہ، خالد بن عقبہ، عمرو بن عقبہ و ام كلثوم بنت عقبہ
ازواج: ام عمرو بنت جندب، فاطمہ بنت وليد، رقيہ بنت النبی محمد، ام كلثوم بنت النبی محمد، فاختہ بنت غزوان، ام البنين بنت عيينہ، رملہ بنت شيبہ، و نائلہ بنت الفرافصہ
ذريت: عمرو، خالد، ابان، عمر، مريم، وليد، سعيد، ام سعيد، عبد اللہ، عبد اللہ الصغير، عبد الملک، عائشہ، ام ابان، ام عمرو، ام خالد، ام ابان الصغری، اروی۔


ابو عبد اللہ عثمان بن عفان اموی قرشی (47 ق ھ - 35 ھ / 576ء656ء)[1] اسلام کے تیسرے خلیفہ، داماد رسول اور جامع قرآن تھے۔ عثمان غنی سابقین اسلام میں شامل اور عشرہ مبشرہ میں سے تھے، ان کی کنیت ذو النورین ہے کیونکہ انھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کیا تھا، پہلے رقیہ بنت محمد سے کیا، پھر ان کی وفات کے بعد ام کلثوم بنت محمد سے نکاح کیا۔ عثمان غنی پہلے صحابی ہیں جنھوں نے سرزمین حبشہ کی ہجرت کی، بعد میں دیگر صحابہ بھی آپ کے پیچھے حبشہ پہنچے۔ بعد ازاں دوسری ہجرت مدینہ منورہ کی جانب کی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان غنی پر مکمل اعتماد اور ان کی فطری حیاء و شرافت اور جو انھوں نے اپنے مال کے ذریعہ اہل ایمان کی نصرت کی تھی، اس کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کے ساتھ ان کو بھی جنت اور شہادت کی موت کی خوش خبری دی۔[3]
سنہ 23ھ (644ء) میں عمر بن خطاب کی شہادت کے بعد مشورہ سے آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے انھوں نے 644ء سے 656ء تک انجام دی۔[4] ان کے عہد خلافت میں جمع قرآن مکمل ہوا، مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز، خراسان، کرمان، سیستان، افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے اسلامی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری فوج بھی بنائی۔[4][5]

ان کا زمانہ خلافت بارہ سال کے عرصہ پر محیط ہے، جس میں آخری کے چھ سالوں میں کچھ ناخوشگوار حادثات پیش آئے، جو بالآخر ان کی شہادت پر منتج ہوئے۔[6] ‏سنہ 35 ھ، 18 ذی الحجہ، بروز جمعہ بیاسی سال کی عمر میں انھیں ان کے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کے دوران میں شہید کر دیا گیا اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے۔[7]

ابتدائی زندگی

نسب

عثمان غنی کا نسب حسب ذیل ہے: «عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن قصی بن كلاب بن مرہ بن کعب بن كعب بن لوی بن غالب بن فہر بن فہر بن مالک بن مالک بن النضر بن کنانہ (اسی کا لقب قریش تھا) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن معد بن عدنان»، عثمان غنی کا نسب عبد مناف بن قصی کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔

والدہ: «اروی بنت کریز بن ربیعہ بن حبیہب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن كلاب بن مرہ بن کعب بن كعب بن لوی بن غالب بن فہر بن فہر بن مالک بن مالک بن النضر بن کنانہ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن معد بن عدنان»، ان کی والدہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور ان کی نانی کا نام بیضا بنت عبدالمطلب تھا۔[8][9][10][11]

نشو و نما

عثمان بن عفان کی پیدائش سنہ 576ء میں عام الفیل کے چھ سال بعد[1] طائف میں ہوئی،[1] تاہم ایک قول مکہ میں پیدائش کا بھی ہے۔[2] یہ قریش کی ایک شاخ بنو امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف میں پیدا ہوئے، یہ قبیلہ سرداران قریش میں سے تھا۔ ان کے والد عفان ابو سفیان بن حرب کے چچا زاد بھائی تھے۔ عثمان غنی کی ایک بہن بھی تھی جس کا نام آمنہ بنت عفان تھا۔ عفان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے عقبہ بن ابی معیط سے نکاح کر لیا، جس سے تین بیٹے اور بیٹیاں ہوئیں، ولید بن عقبہ، خالد بن عقبہ، عمارۃ بن عقبہ اور ام کلثوم بنت عقبہ، یہ سب عثمان غنی کے ماں شریک بھائی بہن تھے۔[12] عثمان غنی کی والد اروی بنت کریز نے اسلام قبول کیا تھا اور انہی کے دور خلافت میں وفات پائیں،[13] جبکہ ان کے والد عفان کا انتقال زمانہ جاہلیت ہی میں ہو گیا تھا۔

عثمان غنی زمانہ جاہلیت ہی سے انتہائی شریف الطبع،[2] ذہین اور صائب الرائے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے قبل کبھی کسی بت کو سجدہ کیا اور نہ شراب پی۔[14] نیز علوم عرب مثلاً انساب، امثال اور جنگوں کے بڑے عالم تھے، شام اور حبشہ کا سفر کیا تو وہاں غیر عرب قوموں کے ساتھ رہنے کا موقع ملا، جس کی وجہ سے ان اقوام کے حالات، طور طریقے اور رسم و رواج سے انھیں واقفیت حاصل ہوئی، یہ خصوصیت ان کی قوم میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھی۔[15] عثمان غنی کا پیشہ تجارت تھا جو ان کے والد سے انھیں وراثت میں ملی تھی، اس پیشہ سے انھوں نے خوب دولت حاصل کی اور بنو امیہ کی اہم شخصیات میں شمار ہونے لگے۔ عثمان غنی انتہائی سخی اور کریم النفس تھے، زمانہ جاہلیت میں ان کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن جب رقیہ بنت محمد سے ان کے گھر میں عبد اللہ کی ولادت ہوئی تو مسلمان ان کو ابو عبد اللہ کی کنیت سے پکارنے لگے۔[16]

اوصاف

عثمان غنی کا رنگ سفید لیکن کچھ زردی مائل تھا، خوبصورت اور خوش قامت تھے۔ دونوں ہاتھوں کی کلائیاں خوش منظر تھیں، بال سیدھے یعنی گھنگریالے نہیں تھے۔ ناک ابھری ہوئی اور جسم کا نچلا حصہ بھاری تھا۔ پنڈلیوں اور دونوں بازوؤں پر کثرت سے بال تھے۔ سینہ چوڑا چکلا اور کاندھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی تھی تھیں۔ چہرہ پر چیچک کے متعدد نشانات، دانت ہموار اور خوبصورت تھے۔ داڑھی بڑی گنجان اور زلفیں دراز، آخر عمر میں زرد خضاب کرنے لگے تھے۔ جسم کی کھال ملائم اور باریک تھی۔[17]

لباس

تجارت میں کامیابی کی باعث خاصی وسعت تھی، چناں چہ عمدہ لباس پہنتے اور سو سو دینار کی یمنی چادریں اوڑھتے تھے، لیکن لباس پہننے میں سنت نبوی کا خیال رہتا۔ سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ «عثمان بن عفان آدھی پنڈلی تک لنگی باندھا کرتے اور فرماتے کہ میرے محبوب کی لنگی ایسی ہوا کرتی تھی۔ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی بھی پہنتے تھے۔[18]

غذا

اسی فراخی کے باعث غذا بھی عمدہ اور پرتکلف ہوا کرتی تھی۔ عثمان غنی پہلے مسلم خلیفہ تھے جو چھنا ہوا آٹا استعمال کرتے تھے۔[18]

گفتگو

فطرتاً کم سخن تھے لیکن جب کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے تو گفتگو سیر حاصل اور بلیغ ہوتی۔[18]

اسلام

عثمان بن عفان نے چالیس سال کی عمر میں ابو بکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ آپ پہلے اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں۔ آپ ایک خدا ترس اور غنی انسان تھے۔ آپ فیاض دلی سے دولت اللہ کی راہ میں خرچ کرتے۔ اسی بنا پر محمد بن عبد اللہ نے آپ کو غنی کا خطاب دیا۔

ذو النورين

ذو النورين کا مطلب ہے دو نور والا۔ آپ کو اس لیے ذو النورين کہاجاتا ہے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ منقول ہے کہ آج تک کسی انسان کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ اس کے عقد میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔[19] آپ کا شمار عشرہ مبشرہ میں کیا جاتا ہے یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ ہی میں جنت کی بشارت دی تھی۔[20] آپ کی شادی پہلے محمد بن عبد اللہ کی بیٹی رقیہ سے ہوئی اور رقیہ کی وفات کے بعد پھر آپ کا نکاح محمد بن عبد اللہ کی دوسری بیٹی ام کلثوم سے ہوا۔ اسی نسبت سے آپ کو ذو النورین کہتے ہیں۔
عثمان غنی کے سوا دنیا میں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو صاحبزادیاں آئی ہوں، اسی لیے آپ کو ذو النورین کہا جاتا ہے۔ آپ سابقین اَوَّلین اور اَوَّل مہاجرین عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اور ان صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جمعِ قرآن کی عزت عطا فرمائی۔[21]

ہجرت

آپ نے اسلام کی راہ میں دو ہجرتیں کیں، ایک حبشہ کی جانب اور دوسری مدینہ منورہ کی طرف۔

خلافت

چاندی کا درہم جس پر عثمان کے دور میں بسم اللہ لکھا گیا۔ اس کا وزن تقریباً 3 گرام ہے۔ اس کو عمر نے 5۔3 گرام سے کم کرکے3 گرام کیا تھا۔

محمد بن عبد اللہ نے ایک مرتبہ عثمان سے فرمایا:

ائے عثمان اللہ تجھے خلافت کی قمیص پہنائے گا لوگ اتارنا چاہیں گے تو مت اتارنا یہاں تک کہ مجھ سے آملو۔

عمر فاروق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اپنی وفات سے پہلے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں چھ صحابی شامل تھے۔ عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمان بن عوف رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کمیٹی میں شامل تھے۔ اس کمیٹی نے عثمان کو خلیفہ نامزد کیا۔ آپ نے بارہ سال خلافت کی زمہ داریاں سر انجام دیں۔ آپ کے دور خلافت میں ایران اور شمالی افریقا کا کافی علاقہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔

جامع قرآن

عثمان ذوالنورین کو جامع القرآن کہا جاتا ہے۔ [22] ابن ابی داود نے بسند صحیح سوید بن غفلہ سے روایت کی انہوں نے فرمایا علی کا فرمان ہے کہ عثمان کے بارے میں خیر ہی کہو ؛ کیونکہ انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کچھ بھی کیا صرف اپنی رائے سے نہیں بلکہ ہماری ایک جماعت کے مشورہ سے کیا گیا [23] ان ہی سے روایت ہے میں خلیفہ ہوتا تو مصحف کے بارے میں وہی کرتا جو عثمان نے کیا اختلاف لغات قبائل عرب میں عربی زبان میں کافی اختلافات تھے مثلا جس کلمہ ء مضارع کا عین ماضی مکسور ہو اس کی علامات مضارع ا۔ ت۔۔ ن کو غیر اہل حجاز کسرہ دیتے تھے اسی طرح علامات مضارع کو ی کو جب کہ اس کے بعد کوئی دوسری یا ہو اس لیے وہ تعلم م پیش کے ساتھ کو تعلم ت زیر اور م زبر کے ساتھ بولتے [24] اسی طرح نبی ھذیل حتی کو عتی اہل مدینہ کے یہاں تابوت کا تلفظ تابوہ تھا بنی قیس کاف تانیث کے بعد ش بولتے ضربک کی بجاءے ضربکش کہتے اس طریقہ تلفظ کو کشکشہ قیس سے تعبیر کیا جاتا بنی تمیم ان ناصبہ کو عن کہتے، اسی طرح ان کے نزدیک لیس کے مشابہ ماولا مطلقا وامل نہیں، ماہذا بشرا ان کے لغت پر ماہذا بشر ہو گا اسی طرح کے اور بہت سے اختلاف تھے

حدیث میں ذکر

ان 10 صحابہ کا ذکر عبدالرحمن بن عوف کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:

عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں۔[25]

شہادت

اسلام کے دشمنوں خاص کر مسلمان نما منافقوں کو خلافت راشدہ اک نظر نہ بھاتی تھی۔ يہ منافق رسول اللہ سے بھی دنیاوی بادشاہوں کی طرح یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ بھی اپنا کوئی ولی عہد مقرر کریں گے۔ ان منافقوں کی ناپاک خواہش پر اس وقت کاری ضرب لگی جب امت نے ابوبکر کو اسلام کا پہلا متفقہ خلیفہ بنا لیا۔ ابو بکر کی خلافت راشدہ کے بعد ان منافقوں کے سینے پر اس وقت سانپ لوٹ گیا جب امت نے کامل اتفاق سے عمر کو خلیفہ اسلام چن لیا۔ عمر کے بعد ٱپ کا سریر آرائے خلافت ہونا بھی ان مسلمان نما منافقوں کے لیے صدمہ جانکناہ سے کم نہ تھا۔ انھوں نے آپ کی نرم دلی کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور آپ کو شہید کرنے کی ناپاک سازش کی اور ايسے وقت ميں کاشانہ خلافت کا محاصرہ کيا جب اکثر صحابہ کرام حج کے ليے مکہ گئے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنی جان کی خاطر کسی مسلمان کو مزاحمت کرنے کی اجازت نہ دی۔

علی اس صورت حال سے سخت پریشان تھے انہوں نے اپنے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین کے ہمراہ کئی صحابہ زادوں جن میں طلحہ کے صاحبزادوں سمیت عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن زبیر بھی شامل تھے ان سب کو کاشانہ خلافت کی حفاظت پر مامور کیا۔ تاہم اور چالیس روز تک محبوس رہے۔ چالیس روز بعد باغی آپ کے گھر میں داخل ہو گئے اور آپ کو شھيد کرديا۔ اس دلخراش سانحہ مين آپ کی زوجہ نائلہ کی انگشت مبارک بھی شھيد ہو گئیں۔ آپ کی شہادت کے بعد علی ابن ابی طالب نے خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے خلافت سنبھالی۔

ابن عساکرزید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ محمد رسول عربی نے فرمایا ایک دن عثمان میرے پاس سے گزرے اور اس وقت ایک فرشتہ میرے قریب تھا جس نے کہا یہ شخص (عثمان) شہید ہو گا۔

حوالہ جات

  1. ^ ا ب پ ت ٹ نداء الإيمان: كتاب عثمان بن عفان، الفصل الأول «حياة عثمان»، من تأليف: محمد رضا الأديب
  2. ^ ا ب پ صحابة رسول اللہ: عثمان بن عفان اموی
  3. مختصر تذکرہ
  4. ^ ا ب موقع الرقية الشرعية: عثمان بن عفان
  5. الخلافة والخلفاء الراشدون، ص: 222
  6. طبقات ابن سعد (1/ 39 – 47)، البدایہ و النہایہ (7/ 144 – 149) الخلفاء الراشدون از خالدی، ص: 112
  7. طبری، تاريخ الأمم والملوك ج 2/ص 688، ابن اثیر، الكامل في التاريخ ج 3/ص: 69
  8. مسعودی، مروج الذهب ج 2/ص 340
  9. طبری، تاريخ الأمم والملوك ج 2/ص: 692
  10. ابن اثیر، الكامل فی التاریخ ج 3/ص: 74
  11. تاريخ الإسلام ج 1/ص: 252
  12. نداء الإيمان الطبقات الکبری، ذكر ضرب النساء - أروى بنت كريز
  13. الخلافة الراشدة والدولة الأموية، از ڈاکٹر یحیی الیحیی، ص388
  14. مشروع سلسلة العلامتين الوقفي: آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ 3llamteen.com (Error: unknown archive URL) عثمان بن عفان
  15. عبقرية عثمان از عقاد، ص: 72
  16. التمهيد والبيان في مقتل الشهيد عثمان، ص: 19
  17. اوصافِ جمیلہ
  18. ^ ا ب پ کراماتِ عثمانِ غنی، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
  19. سنن البیہقی
  20. دو نوروں والا
  21. تاریخ الخلفاء، عثمان بن عفان، ص217، شبیر برادرز لاہور
  22. (قرآن کیسے جمع ہوا ازمحمد احمد اعظمی مصباحی)
  23. (الاتقان ص 61)
  24. (شرح کافیہ للرضی ص 187 ج 2 مطبوعہ نولکشور لکھنو1279 ھ)
  25. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713

بیرونی روابط

اسلامی مؤرخین کے افکار:

عثمان عرب وسیط میں:

نظریات اہل تشیع:

عثمان بن عفان
چھوٹی شاخ قریش
 وفات: 17 جولائی 656ء
مناصب سنت
ماقبل  خلیفہ راشد
644ء656ء
مابعد 
شاہی القاب
ماقبل  شاہ فارس
651ء656ء
عہدہ
خلافت میں مدغم ہوا